Monday, 2 October 2017

داستانِ کرب و بلا







داستانِ کرب و بلا


سانحۂ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں اموی خلیفہ یزید اول کی بھیجی گئی افواج نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ 72 ساتھی تھے جن میں سے 18 اہل بیت کے اراکین تھے۔ اس کے علاوہ خاندانَ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

یزید کی نامزدگی
ہجرت کاساٹھواں سال اوررجب کامہینہ کچھ ایسا دل دکھانے والاسامان اپنے ساتھ لایا،جس کانظارہ اسلامی دنیاکی آنکھوں کو ناچاراس طرف کھینچتا ہے،جہاں بے چین کردینے والی تکلیفوں نے دینداردِلوں کے بے قرارکرنے اورخداپرست طبیعتوں کوبے تاب بنانے کے لئے حسرت وبے کسی کاسامان جمع کیا ۔ یزیدپلیدکاتختِ سلطنت کواپنے ناپاک قدم سے گندہ کرنا ان ناقابلِ برداشت مصیبتوں کی تمہیدہے جن کوبیان کرتے کلیجا منہ کوآتااوردل ایک غیرمعمولی بے قراری کے ساتھ پہلومیں پھڑک جاتاہے ۔اس مردودنے اپنی حکومت کی مضبوطی اس امرمیں منحصرسمجھی کہ اہلِ بیتِ کرام کے مقدس وبے گناہ خون سے اپنی ناپاک تلوار رنگے ۔

امام حسن کی شہادت
یزید کاپہلا حملہ سیدنا امام حسن پر چلا۔ جعدہ نامی زوجہ امام عالی مقام امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہکایا کہ اگر تو زہر دے کر امام کا کام تمام کر دے گی تو میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔وہ شقیہ بادشاہ کی بیگم بننے کے لالچ میں شاہان جنت کا ساتھ چھوڑ کر ،سلطنت عقبیٰ سے منہ موڑ کرجہنم کی راہ پر ہولی۔ کئی بار زہر دیاکچھ اثر نہ ہوا،پھرتو جی کھول کر اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرے اور امام جنت مقام کو سخت تیز زہر دیا یہاں تک کہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے جگرپارے کے اعضائے باطنی پارہ پارہ ہو کر نکلنے لگے۔ یہ بے چین کر نے والی خبر سن کرحضرت امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پیارے بھائی کے پاس حاضرہوئے ۔سرہانے بیٹھ کرگزارش کی: ''حضرت کوکس نے زہردیا؟ فرمایا ''اگر وہ ہے جومیرے خیال میں ہے تواللہ بڑابدلہ لینے والا ہے،اور اگرنہیں، تومیں بے گناہ سے عوض نہیں چاہتا۔''
(حلیۃ الاولیاء،الحسن بن علی،الحدیث۱۴۳۸،ج۲،ص۴۷ملخصاً)

پھر جانے والے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنے والے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویوں وصیت فرمائی:''حسین دیکھو اہل کوفہ سے ڈرتے رہنا ،مباداوہ تمہیں باتوں میں لے کربلائیں اوروقت پر چھوڑ دیں ،پھرپچھتاؤ گے اوربچاؤ کاوقت گزرجائے گا''۔
بے شک امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ وصیت موتیوں میں تولنے کے قابل اوردل پرلکھ لینے کے لائق تھی،مگراس ہونے والے واقعے کوکون روک سکتا؟ جسے قدرت نے مدتوں پہلے سے مشہورکررکھاتھا۔

یزید کا ذاتی کردار
یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیروشکار اور شراب و شباب کی محافل اس کے پسندیدہ مشاغل تھے لٰہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا امام حسین عالی مقام رضی اللہ عنہ کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا۔

بیعت پر اصرار اور مکہ روانگی
ولید بن عتبہ نے امام حسین اور عبداللہ بن زبیر کو قاصد کے ذریعہ بلایا ۔ ابھی تک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی ۔ کیونکہ امیر معاویہ کی خلافت تک حالات ٹھیک تھے ۔ امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری اور بیعت امیر معاویہ کے بعد مسلمانوں میں آپس میں جنگ و جدل کا خاتمہ ہوگیا تھا۔تو اس اہم بلاوے کا مقصد دونوں حضرات نے سمجھ لیا کہ امیر معاویہ کی وفات ہوچکی۔اور یزید کو نامزد کردیا گیا ہے۔امام حسین سے جب بیعت کے لیے کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جب بیعت عام ہوگی اس وقت آ جاؤں گا ۔ ولید راضی ہو گیا اور انھیں واپس لوٹنے کی اجازت دے دی ۔ عبداللہ بن زبیر ایک دن کی مہلت لے کر مکہ روانہ ہوگئے۔ بعد میں ان کا تعاقب کیا گیا مگر اس اثناء میں وہ کہیں دور جا چکے تھے۔ جب مروان کو اس صورت حال کا علم ہوا تو ولید سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بیعت کا وقت کھو دیا ۔ اب قیامت تک ان سے بیعت نہ لے سکو گے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا ۔ لٰہذا وہ27 رجب60 ہجری میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر شعب ابی طالب میں قیام کیا۔

مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفیوں کے بے شمار خطوط آنے کے بعد مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ اصل صورت حال معلوم کریں۔ مسلم رضی اللہ تعالی عنہ کے کوفہ پہنچے کے پہلے ہی دن بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر مسلم بن عقیل نے امام حسین کو کوفہ آنے کاخط لکھ دیا۔

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا سفر کوفہ
اہل مکہ اور مدینہ نے آپ کو کوفہ جانے سے باز رکھنے کے لیے پوری کوششیں کیں کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ طرز عمل ان کے سامنے تھا۔ عمرو بن عبدالرحمن ، عبداللہ ابن عباس ، عبداللہ بن زبیر سب نے مشورہ دیا کہ ’’چونکہ کوفہ یزید کی حکومت کے تحت ہے وہاں ان کی افواج اور سامان سب کچھ موجود ہے اور کوئی قابل اعتماد نہیں اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ مکہ ہی میں رہیں۔‘‘ عبداللہ ابن زبیر نے تجویز کیا کہ آپ مکہ میں رہ کر اپنی خلافت کی جدوجہد کریں ہم سب آپ کی مدد کریں گے ۔ لیکن جب امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ رضا مند نہ ہوئے تو حضرت عبداللہ ابن عباس نے آپ کو کوفہ کی بجائے یمن جانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ ’’اگر کوفہ کاسفر آپ کے نزدیک ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکھیے کہ وہ یزید کے حاکموں کو وہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں۔‘‘ لیکن امام حسین نے کہا کہ ’’اے ابن عمر میں جانتا ہوں کہ تم میرے خیر خواہ ہو ۔ لیکن میں عزم کر چکا ہوں۔‘‘ اس پر ابن عباس نے کہا کہ ’’اگر آپ نہیں مانتے تو کم از کم اہل و عیال کو ساتھ نہ لے جائیے مجھے ڈر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح آپ بھی بال بچوں کے سامنے ذبح کیے جائیں گے۔ ‘‘ لیکن ان تمام ترغیبات کے باوجود امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے فیصلہ پر قائم رہے اور بالآخر 3 ذوالحج 60 ھ کو مکمہ معظمہ سے کوفہ کے لیے چل پڑے۔
آپ نے اپنے سفر کے بارے میں کہا کہ۔۔میں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کوخواب میں دیکھا ہے اورمجھے ایک حکم دیا گیا ہے ،اس کی تعمیل کروں گا ،سرجائے خواہ رہے۔''پوچھا:''وہ خواب کیا ہے ؟'' فرمایا:''جب تک زندہ ہوں کسی سے نہ کہوں گا ۔'' یہ فرما کر روانہ ہوگئے ۔
(الکامل فی التاریخ،ذکرمسیرالحسین الی الکوفۃ.،ج۳،ص۳۹۹ ملخصا)


آپ کی روانگی کے بعد آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر خاوند حضرت زینب رضی اللہ عنہانے ایک عریضہ اپنے لڑکوں عون اور محمد کے ہاتھ روانہ کیا کہ :
” میں آپ کو اللہ تعالٰی کا واسطہ دیتا ہوں کہ جونہی میرا خط آپ کو ملے لوٹ آئیے کیونکہ جس جگہ آپ جارہے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہاں آپ کی ہلاکت اور آپ کے اہل بیت کی بربادی ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ ہلاک ہوگئے تو دنیا تاریک ہو جائے گی ۔ کیونکہ اس وقت آپ ہی ہدایت یافتہ لوگوں کا علم اور مومنوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ آپ واپسی سفر میں جلدی کیجیے ۔ میں بھی جلد آپ کے پاس پہنچتا ہوں “
حضرت عبداللہ بن جعفر ، عمر بن سعد حاکم مکہ کا سفارشی خط لے کر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے ملے اور انھیں بتایا کہ کوفہ کے لوگوں پر اعتماد مناسب نہیں ا بن سعد اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ آپ مکہ لوٹ آئیں تو میں یزید کے ساتھ آپ کے معاملات طے کرادوں گا اور آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ لیکن آپ نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق سفر کوفہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجبور ہو کر عبداللہ بن جعفر واپس ہو گئے مگر عون اور محمد کو ساتھ رہنے دیا۔ راستہ میں مشہور شاعر فرزوق آپ سے ملا اور امام حسین سے عرض کی۔
” لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ۔ قضاء الہی آسمان سے اتری ہے اور اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے “
لیکن آپ نے اس کے باوجود سفر کو بدستور جاری رکھا ۔

ابن زیاد کوفہ میں
ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ کوفہ پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم بن عقیل سے اپنی وفاداریاں توڑ لیں گے انہیں امان دی جائے گی ۔ اس کے بعد ہر محلہ کے رئیس کو بلایا اور اسے اپنے اپنے علاقہ کے امن و امان کا ذمہ دار قرار دے کر مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کی تلاش شروع کردی ۔ اس وقت مسلم ایک محب اہل بیت ہانی بن عروہ کے ہاں چلے گئے ۔ ابن زیاد نے ہانی کو بلا کر مسلم کو پیش کرنے کا حکم دیا اور ہانی نے انکار کر دیا جس پر انھیں قید میں ڈال کر مار پیٹ کی گئی۔

مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کی گرفتاری اور شہادت
شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل ہو گئے ۔ یہ خبر سنتے ہی مسلم رضی اللہ تعالی عنہ نے اٹھارہ ہزار ہمنواؤں کے ساتھ ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ ابن زیاد کے پاس اس وقت صرف پچاس آدمی موجود تھے۔ چنانچہ اس نے حکمت سے کام لیا اوران رئیسان کوفہ کی ترغیب سے لوگوں کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔آخر کام مسلم رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ صرف تیس آدمی رہ گئے ۔ مجبوراً مسلم بن عقیل نے ایک بڑھیا کے گھر پناہ لی لیکن اس بڑھیا کے بیٹے نے انعام کے لالچ میں آکر خود جا کر ابن زیاد کو اطلاع کر دی ۔ابن زیاد نے یہ اطلاع پا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت مسلم بن عقیل تن تنہا لڑنے پر مجبور ہوئے جب زخموں سے چور ہوگئے تو محمد بن اشعث نے امان دے کر گرفتار کر لیا ۔ لیکن آپ کو جب ابن زیاد کے سامنے پیش کیاگیا تو اس نے امان کے وعدہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے آپ کے قتل کا حکم دے دیا۔ مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعث سے کہا کہ میرے قتل کی اطلاع امام حسین تک پہنچا دینا اور انھیں میرا یہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ ’’اہل کوفہ پر ہرگز بھروسہ نہ کریں اور جہاں تک پہنچ چکے ہوں وہیں سے واپس چلے جائیں‘‘ ۔ ابن اشعث نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ایک قاصد حضرت امام حسین کی طرف روانہ کر دیا۔

ابن زیاد کی تیاریاں
ابن زیاد کے حکم سے فوج کے افسر حصین بن نمیر نے قادسیہ سے جبل لعل تک سواروں کو مقرر کر دیا اور تمام اہم راستوں کی ناکہ بندی کر دی ۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قاصد قیس کو ابن زیاد کے آدمیوں نے گرفتار کرکے قتل کر دیا ۔ جب آپ بطن رملہ سے آگے بڑھے تو انھیں عبداللہ ابن مطیع ملے ۔ انھوں نے آپ کو آگے جانے سے روکا محمد بن اشعث کے بھیجے ہوئے قاصد نے آپ کو مقام ثعلبیہ پر مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر دی ۔ اب آپ سفر کوفہ کے بارے میں متردد ہوئے۔ ساتھیوں نے واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن مسلم کے بھائیوں نے اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کی خاطر سفر جاری رکھنے کے لیے زور دیا۔ جس کے بعد پوزیشن واضح ہو گئی۔ آپ کے ساتھ دوران سفر بہت سے بدوی شامل ہو چکے تھے۔ آپ نے ان سب کو جمع کیا اور فرمایا جو لوگ واپس جانا چاہیں انہیں اجازت ہے۔ چنانچہ سوائے ان جان نثاروں کے جو مدینہ سے ساتھ آئے تھے سب ساتھ چھوڑ گئے۔

حر بن یزید تمیمی کی آمد
ابن زیاد نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی پیش قدمی روکنے کے لیے حر بن یزید تمیمی کو روانہ کیا۔ ذمی حشم کے مقام پر آپ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے کوفیوں کے خطوط کے دو تھیلے منگوا کر دکھائے اور کہا کہ ’’اب آپ لوگوں کی رائے بدل گئی ہے۔ تو میں واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ لیکن حر نے کہا کہ ہمیں تو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا سفر کوفہ جاری رکھا۔ آپ نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا ۔

جس میں اپنےمقاصد کی وضاحت کی ۔ آپ نے فرمایا:
” لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے ، خدا کا عہد توڑنے والے ، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے ۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے “

کچھ دور جاکر طرماج بن عدی سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے آپ کو یمن چلنے کی دعوت دی لیکن آپ نے یہ پیش کش شکریہ کے ساتھ ٹال دی ۔

میدان کربلا آمد
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا قافلہ اور حربن یزید کا لشکر ساتھ ساتھ آگے کی طرف چلتے رہے جہاں کہیں آپ کے قافلہ کا رخ صحرائے عرب کی طرف ہو جاتا حر آپ کو روک دیتا اور رخ پھیر کر کوفہ کی طرف کر دیتا۔ چلتے چلتے آپ نینوا پہنچے ۔ وہاں ابن زیاد کے ایک قاصد نے حر کو ایک خط پہنچایا جس میں حکم تھا
” جونہی میرا یہ خط اور میرا قاصد تم تک پہنچیں حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں کو جہاں وہ ہیں وہیں روک لو اور انھیں ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو جو بالکل چٹیل میدان ہو اور جہاں کوئی سبزہ اور پانی کا چشمہ وغیرہ نہ ہو میرا یہ قاصد اس وقت تک تمہارے ساتھ ساتھ رہے گا ۔ جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے تم نے اس کی حرف بحرف تعمیل کی “

حر نے تمام صورت حال سے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو آگاہ کیا اور کہا کہ ’’اب میں آپ کو اس جگہ نہ رہنے دوں گا ۔ ‘‘بالآخر یہ مختصر سا قافلہ 2 محرم الحرام61 ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں اترا۔ دوسرے ہی روز عمرا بن سعد 6 ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ ا بن سعد چونکہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے لڑنے کا خواہشمند نہ تھا س لیے قرہ بن سفیان کو آپ کے پاس بھیجا ۔ قرہ بن سفیان سے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ’’اگر تمہیں میرا آنا ناپسند ہے تو میں مکہ واپس جانے کے لیے تیار ہوں ۔‘‘
لیکن ابن زیاد نے اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ا بن سعد کو حکم دیا کہ اگر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بیعت نہ کریں تو ان کا پانی بند کردیا جائے:
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو ایسی حالت میں جب کہ وہ قابو میں آچکے تھے گرفتار کرنا زیادہ مناسب اور ضروری قرار دیا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے اپنی رائے تبدیل کر دی ۔ اور عمر بن سعد کو اس کی اس بات پر سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ. ’’اگر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور اس کے ساتھی اپنے آپ کو حوالہ کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو۔‘‘ شمر مع خط کے عمر بن سعد کے پاس پہنچا۔ عمر بن سعد اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف تلوار اٹھانے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ 9 محرم الحرام کا دن تھا۔

المیہ کربلا اور شہادت عظمٰی
صلح کی آخری گفتگو ناکام ہونے کے بعد امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہیں انھیں میری طرف سے اجازت ہے۔ اس پر کچھ جان نثار اور اعزہ باقی رہ گئے ۔ جنہوں نے آخری وقت تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ان جاں نثاروں کی تعداد صرف 72 تھی ۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مختصر ترین فوج کو منظم کیا۔ میمنہ پر زبیر بن قیس کو اور میسرہ پر حبیب بن مطہر کو متعین کرکے علم عباس رضی اللہ عنہ کو مرحمت فرمایا ۔ جنگ کے آغاز سے پیشتر اللہ تعالٰی کے حضور دعا کی اور ان سے تائید اور نصرت چاہی۔ اس کے بعد اتمام حجت کے لیے دشمنوں کی صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
” اے لوگو! جلدی نہ کرو ۔ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کاجو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو ۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی ۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے “

جونہی آپ تقریر کے اس حصے پر پہنچے تو خیموں سے اہل بیت کی مستورات کی شدت رنج سے چیخیں نکل گئیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے اور حضرت عباس کو انہیں چپ کرانے کے لیے بھیجا۔ جب خاموشی طاری ہوئی تو آپ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
” لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں ۔ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالٰیٰ کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے رسول پر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیار میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے۔ ہے ۔ تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ اور اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں سے وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی حدیث سنی ہے۔ تم ان سے دریافت کرسکتے ہو ۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا آپ کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے “
لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صرف حر بن یزید تمیمی پر آپ کی اس تقریر کا اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ
” یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے۔ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے “

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں آ شامل ہوا۔ اس کے بعد شخصی مبازرت کے طریقے سے جنگ کا آغاز ہوا جس میں اہل بیت اطہر کا پلہ بھاری رہا۔ یہ دیکھ کر ابن سعد نے عام حملہ کا حکم دیا ۔ فدایان و اراکین اہل بیت نے دشمنوں کی یلغاروں کا پوری قوت ایمانی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ فدائی ایک ایک کرکے کٹ مرے لیکن میدان جنگ سے منہ نہ پھیرا۔ دوپہر تک امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بیشتر آدمی کام آ چکے تھے۔ چنانچہ اب باری باری حضرت علی اکبر، عبداللہ بن مسلمہ ، جعفر طیار کے پوتے عدی ، عقیل کے فرزند عبدالرحمن ، حضرت حسن کے صاحبزادے قاسم اور ابوبکر وغیرہ میدان میں اترے اور شہید ہوئے۔ ان کے بعد امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ آئے۔ دشمنوں نے ہر طرف سے آپ پر یورش کی۔ یہ دیکھ کر آپ کے بھائی عباس ، عبداللہ ، جعفر اور عثمان آپ کی حفاظت کے لیے ڈٹ گئے مگر چاروں نے شہادت پائی۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ تنہا میدا میں جمے ہوئے تھے۔ عراقیوں نے آپ کو ہر طرف سے نرغہ میں لے لیا مگر شہید کرنے کی کسی کو بھی جرات نہ ہو رہی تھی کیونکہ کوئی نہ چاہتا تھا کہ یہ گناہ اس کے سر ہو۔ بالآخر شمر کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بدبختی مول لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوار کے وارکیے۔ سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ گر گئے۔ ان کے گرنے پر شمر ذی الجوشن آپ کی طرف بڑھا تو اس کی برص زدہ شکل دیکھتے ہی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے نانا رسولِ خدا نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے۔اے بدبخت شمر بلاشبہ تو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا نے خبر دی تھی۔ اس کے بعد شمر نے ان کا سر پیچھے کی طرف سے(پسِ گردن سے) کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔ روایات کے مطابق اللہ کے نبی حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا سر بھی اسی طرح پس گردن سے کاٹ کر جدا کیا گیا تھا۔ابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ کا سربریدہ جسم گھوڑوں کے ٹاپوں سے روندوا دیا گیا۔ بعد میں تمام شہدائے اہلِ بیت کے سر نیزوں کی نوک پر رکھ کر پہلے ابنِ زیاد کے دربار میں لے جائے گئے اور بعد میں دمشق میں یزید کے دربار میں لے جائے گئے۔یزید نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔

” کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئی نہ کوئی فرشتہ آیا ہے “(دمع السجوم ص 252)

اس شعر سے پتہ چلتا ہے کہ یزید کو بدر میں مسلمانوں کی فتح اور اپنے خاندان کے کفار سرداروں کی موت پر رنج تھا۔ العیاذ بااللہ

اس شعر کو سن کر اور یزید کا فخریہ انداز دیکھ کر دربار میں موجود ایک یہودی سفیر نے کہا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد سے ہوں۔ میرے اور ان کے درمیان ستر پشتیں گذر چکی ہیں مگر اس کے باوجود یہودی میری بے حد عزت و تکریم کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ تم نے اپنے نبی کے نواسے کو شہید کردیا ہے اور اب اس پر فخر بھی کر رہے ہو۔ یہ تمہارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
(خصائص الکبریٰ ، الصواحق المحرقہ)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ مٹی دی تھی اور فرمایا تھا کہ اے ام سلمیٰ جب یہ مٹی سرخ ہو جائے یعنی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین رضی اللہ تعالی عنہ شہید کر دیا گیا۔ ایک دن ان کی بیٹی ان سے ملنے گئیں تو آپ زارو قطار رو رہی تھیں۔ پوچھا گیا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ابھی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خواب میں تشریف لائے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپ کے سرِ انور اور ڈاڑھی مبارک پر مٹی تھی۔ میں نے پوچھا آقا یہ گرد کیسی تو فرمایا کہ اے ام سلمہ ابھی اپنے حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل کا منظر دیکھ کر میدانِ کربلا سے آرہا ہوں۔ جاگنے کے بعد میں نے وہ مٹی دیکھی جو انہوں نے مجھے دی تھی تو وہ خون ہو چکی تھی۔(بخاری شریف، مشکوٰۃ ، مستدرک الحاکم، خصائص الکبریٰ)

واقعہ حرہ ۔۔(اس کا تفصیلی ذکر کسی اور پوسٹ میں ہوگا)
شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی خبر جب سرزمین حجاز میں پہنچی تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس سانحہ پر اشکبار نہ ہو ۔ لٰہذا حجاز میں فوری طور پر انقلاب برپا ہوگیا۔ اہل مدینہ نے اموی حکام کو صوبہ سے نکال دیا اور عبداللہ بن زبیر کی بیعت کر لی۔ یزید نے ولید بن عقبہ کی ماتحتی میں شامیوں کی فوج روانہ کی۔ اس فوج میں عیسائی کثیر تعداد میں شامل تھے ۔ جب اہل مدینہ نے اطاعت قبول نہ کی تو ولید بن عقبہ نے شہر پر حملہ کرنے کا حکم دیا ۔ اہل مدینہ نے اگرچہ بڑی بے جگری سے لڑے لیکن شامی افواج سے ان کو شکست ہوئی ۔ اس جنگ میں بڑے بڑے اکابر مدینہ شہید ہوئے جن میں فضل بن عباس اور عبداللہ بن حنظلہ قابل ذکر ہیں۔ شہر پر قبضہ کے بعد مدینہ الرسول تین دن تک شامی فوجیوں کے ہاتھوں لٹتا رہا۔ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھ دئیے گئے اور تین دن مسجد نبوی میں نہ کوئی اذان ہوئی اور نہ ہی کوئی جماعت۔ مسلمانوں خواتین کی عزت و آبرو برباد ہوئی اور تین روز تک مسلسل قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بہت اہم ہے اور سانحہ کربلا کے بعد یزید کا دوسرا بڑا سیاہ کارنامہ قرار دیا جا تاہے۔

اہل بیت کی شام کو روانگی
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد اہل بیت اطہر کے بقیہ افراد پر مشتمل قافلہ ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچا ۔ یہ سیاہ بخت انسان اس خستہ حالت میں بھی افراد اہل بیت سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آیا۔ حضرت امام حسین کا کٹا ہوا سر ابن زیاد کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ ہر خاص و عام کو محل میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ابن زیاد سر مبارکہ کو دیکھ کر آپ کے لبوں پر بار بار چھڑی مارتا اور مسکراتا۔ صحابی رسول زید بن ارقم وہاں ایک کونے میں موجود تھے ان سے رہا نہ گیا تو فرمایا:

” ان لبوں سے چھڑی ہٹا لو۔ اللہ تعالٰیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ رسول اللہ ان ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے تھے “
یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ یہ سن کر ابن زیاد کے غضب کی کوئی حد نہ رہی بولا۔ ’’اللہ تیری دونوں آنکھیں رلائے۔ واللہ ! اگر تو بوڑھا ہو کر سٹھیا نہ گیا ہوتا اور تیری عقل ماری نہ گئی ہوتی تو میں تیری گردان اڑا دیتا ۔ ‘‘ یہ دیکھ کر زید بن ارقم مجلس سے اٹھتے ہوئے کہہ گئے:

” اے لوگو! آج کے بعد تم غلام بن گئے کیونکہ تم نے فاطمہ کے لخت جگر کو قتل اور ابن زیاد کو اپنا حاکم بنایا جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا اور شریروں کو نوازتا ہے “
کوفہ سے ابن زیاد نے حضرت امام حسین کا سر مبارک اور قافلہ اہل بیت کو دمشق بھجوا دیا۔ وہاں یزید نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو چھڑی سے چھیڑا اور فخر کا اظہار کیا۔ اور اشعار بھی پڑھے جس کا اوپر تذکرہ گزر چکا ہے۔

امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر واقعہ کربلا سے پہلے ہی مشہور تھی

حضور سرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ام المؤمنین حضرتِ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاکے کاشانہ میں تشریف فرماتھے ،ایک فرشتہ کہ پہلے کبھی حاضر نہ ہواتھا اللہ تبارک وتعالیٰ سے حاضری کی اجازت لے کر مشرف ملاقات ہوا،حضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ام المؤمنین سے ارشادفرمایا:دروازے کی نگہبانی رکھو،کوئی آنے نہ پائے ،اتنے میں سیدناامامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو ابھی چھوٹے بچے تھے) دروازہ کھول کر اندر تشریف لے آئے اور کُودکر حضور پرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی گودمیں جابیٹھے ،حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پیار فرمانے لگے ،فرشتے نے عرض کی: ''حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم انہیں چاہتے ہیں ؟ فرمایا: ہاں! عرض کی:'' وہ وقت قریب آتاہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت انہیں شہید کرے گی اور حضور چاہیں تووہ زمین حضورکو دکھا دوں جہاں یہ شہید کئے جائیں گے ۔ پھرسرخ مٹی اورایک روایت میں ہے ایک ہاتھ میں سرخ ریت،اور ایک میں ہاتھ میں کنکریاں ،حاضرکیں ۔حضورعلیہ الصلاۃو السلام نے سونگھ کر فرمایا: ''رِیْحُ کَرْبٍ وَّبَلاَء''بے چینی اوربلا کی بُوآتی ہے ،پھرام المؤمنین کو وہ مٹی عطاہوئی اور ارشاد ہوا: ''جب یہ خون ہوجائے توجاننا کہ حسین شہیدہوگیا ہے''انہوں نے وہ مٹی ایک شیشی میں رکھ چھوڑی ۔ اُم المؤمنین فرماتی ہیں:'' میں کہا کرتی جس دن یہ مٹی خون ہو جائے گی کیسی سختی کادن ہوگا۔''

(المعجم الکبیر،الحدیث ۲۸۱۷،۲۸۱۸،۲۸۱۹،ج۳،ص۱۰۸)

اہمیت
کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی ۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی ۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے ، راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جور جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور ہی بڑا روح فرسا ہےکہ اسلام کے نام لیواؤں پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کی جو خود کو مسلمان کہتے تھے مزید براں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا جو تعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اسے بھی ظالموں نے نگاہ میں نہ رکھا۔ نواسہ رسول کو میدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اورسر کی بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخو اعتنا ہی نہ سمجھا گیا ۔ اس سے یزید کے اعمال کی آمرانہ ذہنیت کا اظہار بھی ہوتا ہے یہاں یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح ، ملی ، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں توانسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے ۔ لٰہذا ان حقائق کی روشنی میں سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ اسلام کے نام پر سیاہ دھبہ ہے کیونکہ اس سے اسلامی نظام حکومت میں ایسی خرابی کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس سانحہ کو اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی قرار دیں تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہوگا کیونکہ جہاں تک حق و انصاف ، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کی نظام شورائیت کی نفی تھی لٰہذا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خداکی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی ۔ اور انھیں ریگ زار عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔
سچ ہے کہ
اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد
(ختم شد)


No comments:

Post a Comment

Featured post

T.M.C Hospital Kauasa Mumbra Thane

  T.M.C Hospital Kauasa Mumbra Thane Is Hospital Me 120 mm Cable 400 mt Aur 70 mm Cable 150 mt Hamari Team Ne dalkar 5 Panel fiting kiya Cab...