Thursday, 5 October 2017

☆حضور مفتئ اعظم ہند ایک همہ جهت شخصیت☆


☆حضور مفتئ اعظم ہند ایک همہ جهت شخصیت☆
☆☆☆ علیہ الرحمۃ ونورالله مرقدہ ☆☆☆
حضور مفتئ اعظم عالم اسلام کی ولادت 22 ذی الحجہ 1310 هجری مطابق 7 جولائی 1892 عیسوی بروز جمعہ بہ وقت صبح صادق حضرت علامہ حسن رضا خان علیہ الرحمۃ کے دولت سرائے اقدس پر رضا نگر محلہ سوداگران بریلی شریف میں هوئ
والد گرامی نے آپ کا نام محمد تجویز فرمایا اور اسی نام پر عقیقہ بهی هوا جبکه سید ابوالحسین احمد نوری مارهروی علیہ الرحمۃ نے آپ کا نام ابو البرکات محی الدین جیلانی تجویز فرمایا
والد ماجد هی نے عرفی نام مصطفی رضا رکها اور فن شاعری میں آپ نے اپنا تخلص " نوری " پسند فرمایا اور عرفی نام هی مشهور هوا
اور بعد میں عرفی نام کے علاوہ " مفتئ اعظم " کا لقب آپ کا علم بن گیا
آپ کی تاریخ ولادت "" وسلام علی عباده الزلذین اصطفی "" = 1310هجری= سے نکلتی هے
جس وقت آپکی ولادت ہوئی والد گرامی کی عمر مبارک تقریباً اڑتیس سال تهی اور بڑے بهائ حضرت حجتہ الاسلام کی عمر تقریباً "18" سال تهی حضور سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے حضور مفتئ اعظم کو بڑے نازوں سے پالا پوسا آپ کو اپنے برادر اکبر کی محبتیں بهی میسر رهیں حضرت حجتہ الاسلام آپ سے بے پناه محبت فرماتے تھے جبهی تو حج بیت اللہ کی جب دعا کی تو اپنے چھوٹے چھوٹے بهائ کو فراموش نه کیا ان کے لئے بهی دعا مانگی حضرت علامہ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمۃ فرماتے هیں
جب اعلیٰ حضرت دارالافتاء میں تشریق فرما هوتے تو کبھی کبھی شہزادہ اصغر حاضر هوتے اور حاضری کا اتنا پیارا انداز هو تا که قربان هونے کو جی چاہتا جو بهی دیکهتا پکار اٹهتا که بلا شبه یہ مادر زاد ولی کامل هیں
عارف حق آگاہ اور مرشد زماں هیں
فرماتے هیں که آہستہ سے آتے اور دو زانو مودب سرکار رضا میں بیٹھ جاتے اس وقت آپ کی عمر 4 سال کے قریب تهی سارے احباب وتلامذه نے حضور مفتئ اعظم هند کی ولادت پر امام احمد رضا رضی اللہ عنہ کو مبارکباد یاں پیش کیں.. سرکار اعلیٰ حضرت نے فرمایا
" اللہ عزوجل آپ کی زبان مبارک کرے میں تو دین کا ادنٰی خادم هوں اور میری دلی تمنا هے که میرا بیٹا بهی دین کی خدمت کو اپنا شعار بنائے "
چار سال چار ماه چار دن کی عمر میں آپکی رسم تسمیه خوانی خود امام اهلسنت نے اد کی
اور حجتہ الاسلام کو آپ کی تعلیم و نگه داشت کے لئے خاص طور پر متعین فرمایا
آپ کے اساتذه " مولانا رحم الهی منگلوری
مولانا بشیر احمد علی گڑھ
حضور حجتہ الاسلام
والد گرامی
مولانا ظهورالحسین رام پوری
مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی علیهما الرحمۃ والرضوان هیں
18 سال کی عمر میں فارغ هوے
اور تقریباً چالیس علوم و فنون میں مهارت بهم پهونچائ جو مندرجه ذیل هیں
☆ علم القرآن ☆ علم الحدیث ☆ اصول الحدیث ☆ فقه حنفی ☆ ججمله کتب فقه متداولہ مذاهب ارب 


1329
 هجری کو عم محترم علامہ حسن رضا خان علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا تو حجتہ الاسلام منظر اسلام کے مهتمم ہوئے علامہ مصطفیٰ رضا نوری علیہ الرحمۃ کو فتویٰ نویسی اور اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ کی اعانت تفویض هوئ
پهر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد 1340 هجری سے با ضابطہ فتویٰ نویسی کا آغاز کیا
آپ کی تحریروں اور فتاویٰ میں آپ کے والد ماجد مجدد اعظم امام احمد رضا نورالله مرقدہ کے اسلوب کی جهلک اور زرف نگاهی نظر آتی هے تحقیق کا کمال بهی نظر آتا هے اور تدقیق کا جمال بهی، فقهی جزئیات پر عبور کا جلوہ بهی نظر آتا هے اور علامہ شامی نورالله مرقدہ کے تفقه کا انداز بهی امام غزالی نورالله مرقدہ کی نکته سنجی اور امام سیوطی نورالله مرقدہ کے وسعتِ مطالعہ کی جلوه گری بهی هوتی هے
آپ نے اپنی گوناگوں مصروفیات اور همہ جهت مشاغل کے با وجود مختلف موضوعات پر تصنیفات و تالیفات کا ایک گرانقدر ذخیرہ چھوڑا بعض کے اسماء درج کئے جاتے هیں
(1) فتاویٰ مصطفویه کامل 2 وقعات السنان 3 ادخال السنان 4 الموت الاحمر هشاد بید و بند بر مکارئ دیوبند 5 الملفوظ کامل 6 الطاری الداری لهفوات عبدالباری 7 القول العجیب فی جواز التثویب 8 سامان بخشش 9 تنویر الحجه با التواء الحجه 10 طرق الهدی والارشاد 11 وقایه اهل السنه وغیره
امام احمد رضا نورالله مرقدہ کو اپنے فرزند اصغر مفتئ اعظم ہند نورالله مرقدہ کی فقاہت وثقاهت پر اس قدر اعتماد و اطمینان تها که اپنے بعض فتاویٰ پر ان سے تائیدی دستخط کرواتے تهے
امام احمد رضا رضی اللہ عنہ نے اپنی حیات طیبه میں سیکڑوں مسائل اپنے خلف اصغر مفتئ اعظم ہند نورالله مرقدہ سے لکھوائے اور ان کی تصدیق وتصویب فرما کر اپنے دس تخط کئے

رجب 1339 هجری میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ نے متحده هندوستان کے لئے دار القضا شرعی قائم فرمایا اور بعض علماء کرام کی موجودگی میں حضور صدرالشریعه مولانا امجد علی رضوی اعظمی نورالله مرقدہ کو پورے متحدہ هندوستان کے لئے قاض شرع بنایا اور مفتئ اعظم ہند مصطفیٰ رضا نوری، حضرت مفتی محمد برهان الحق صاحب جبلپوری علیهم الرحمۃ والرضوان کو دارالقضاء کے مفتی اور معین کی حیثیت سے مامور فرمایا اور یه بهی ظاهر کر دیا که اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و اصحابه و بارک و سلم نے جو اختیار مجهے عطا فرمایا هے اس کی بنیاد پر یه تقرر عمل میں آیا هے
25
 صفر المظفر 1347 هجری اگست 1928 عیسوی کو خانقاه عالیه رضویه کے عظیم الشان اجتماع میں جس میں هزاروں کی تعداد میں اهلسنت شریک تھے مقامی علماء کرام، اولیاء عظام، مشاهیر قوم کے علاوہ سری لنکا، بنگال
بہار، پنجاب، ممبئی، گجرات، کاٹھیاواڑ، گونڈل، مدراس، یوپی، راج پوتانه سرحد کے جلیل القدر فضلاء و عمائدین قوم بهی جلسه میں حاضر تهے....
اس تاریخی اجلاس میں حضرت مولانا محمد مصطفیٰ رضا نوری علیہ الرحمۃ کو مفتئ اعظم اور صدرالعلماء نه صرف کہا گیا شہزادہ اکبر حجتہ الاسلام مولانا محمد حامد رضا بریلوی نورالله مرقدہ کے حکم سے اس اجلاس میں جو تجاویز پاس هویئں ان تجویز نمبر 3 میں آپ کو صدرالعلماء اور مفتئ اعظم لکہا
 گیا.
حضور مفتئ اعظم ہند نورالله مرقدہ نے اپنی زندگی میں تین حج کئے
پهلا حج 1945 عیسوی
دوسرا حج 1948 عیسوی
تیسرا حج 1971 عیسوی میں جبکه فوٹو کی قید تهی
آپ نے بلا فوٹو حج ادا کیا
آپ 14 محرم الحرام 1402 هجری 12 نومبر 1981 عیسوی رات ایک بجکر چالیس منٹ پر کلمه طیبه کا ورد کرتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے

انا للہ و انا الیہ راجعون
ابر رحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے 

No comments:

Post a Comment

Featured post

T.M.C Hospital Kauasa Mumbra Thane

  T.M.C Hospital Kauasa Mumbra Thane Is Hospital Me 120 mm Cable 400 mt Aur 70 mm Cable 150 mt Hamari Team Ne dalkar 5 Panel fiting kiya Cab...