Monday, 2 October 2017

داستانِ کرب و بلا







داستانِ کرب و بلا


سانحۂ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں اموی خلیفہ یزید اول کی بھیجی گئی افواج نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ 72 ساتھی تھے جن میں سے 18 اہل بیت کے اراکین تھے۔ اس کے علاوہ خاندانَ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

یزید کی نامزدگی
ہجرت کاساٹھواں سال اوررجب کامہینہ کچھ ایسا دل دکھانے والاسامان اپنے ساتھ لایا،جس کانظارہ اسلامی دنیاکی آنکھوں کو ناچاراس طرف کھینچتا ہے،جہاں بے چین کردینے والی تکلیفوں نے دینداردِلوں کے بے قرارکرنے اورخداپرست طبیعتوں کوبے تاب بنانے کے لئے حسرت وبے کسی کاسامان جمع کیا ۔ یزیدپلیدکاتختِ سلطنت کواپنے ناپاک قدم سے گندہ کرنا ان ناقابلِ برداشت مصیبتوں کی تمہیدہے جن کوبیان کرتے کلیجا منہ کوآتااوردل ایک غیرمعمولی بے قراری کے ساتھ پہلومیں پھڑک جاتاہے ۔اس مردودنے اپنی حکومت کی مضبوطی اس امرمیں منحصرسمجھی کہ اہلِ بیتِ کرام کے مقدس وبے گناہ خون سے اپنی ناپاک تلوار رنگے ۔

امام حسن کی شہادت
یزید کاپہلا حملہ سیدنا امام حسن پر چلا۔ جعدہ نامی زوجہ امام عالی مقام امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہکایا کہ اگر تو زہر دے کر امام کا کام تمام کر دے گی تو میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔وہ شقیہ بادشاہ کی بیگم بننے کے لالچ میں شاہان جنت کا ساتھ چھوڑ کر ،سلطنت عقبیٰ سے منہ موڑ کرجہنم کی راہ پر ہولی۔ کئی بار زہر دیاکچھ اثر نہ ہوا،پھرتو جی کھول کر اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرے اور امام جنت مقام کو سخت تیز زہر دیا یہاں تک کہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے جگرپارے کے اعضائے باطنی پارہ پارہ ہو کر نکلنے لگے۔ یہ بے چین کر نے والی خبر سن کرحضرت امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے پیارے بھائی کے پاس حاضرہوئے ۔سرہانے بیٹھ کرگزارش کی: ''حضرت کوکس نے زہردیا؟ فرمایا ''اگر وہ ہے جومیرے خیال میں ہے تواللہ بڑابدلہ لینے والا ہے،اور اگرنہیں، تومیں بے گناہ سے عوض نہیں چاہتا۔''
(حلیۃ الاولیاء،الحسن بن علی،الحدیث۱۴۳۸،ج۲،ص۴۷ملخصاً)

پھر جانے والے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنے والے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویوں وصیت فرمائی:''حسین دیکھو اہل کوفہ سے ڈرتے رہنا ،مباداوہ تمہیں باتوں میں لے کربلائیں اوروقت پر چھوڑ دیں ،پھرپچھتاؤ گے اوربچاؤ کاوقت گزرجائے گا''۔
بے شک امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ وصیت موتیوں میں تولنے کے قابل اوردل پرلکھ لینے کے لائق تھی،مگراس ہونے والے واقعے کوکون روک سکتا؟ جسے قدرت نے مدتوں پہلے سے مشہورکررکھاتھا۔

یزید کا ذاتی کردار
یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیروشکار اور شراب و شباب کی محافل اس کے پسندیدہ مشاغل تھے لٰہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا امام حسین عالی مقام رضی اللہ عنہ کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا۔

بیعت پر اصرار اور مکہ روانگی
ولید بن عتبہ نے امام حسین اور عبداللہ بن زبیر کو قاصد کے ذریعہ بلایا ۔ ابھی تک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی ۔ کیونکہ امیر معاویہ کی خلافت تک حالات ٹھیک تھے ۔ امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری اور بیعت امیر معاویہ کے بعد مسلمانوں میں آپس میں جنگ و جدل کا خاتمہ ہوگیا تھا۔تو اس اہم بلاوے کا مقصد دونوں حضرات نے سمجھ لیا کہ امیر معاویہ کی وفات ہوچکی۔اور یزید کو نامزد کردیا گیا ہے۔امام حسین سے جب بیعت کے لیے کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جب بیعت عام ہوگی اس وقت آ جاؤں گا ۔ ولید راضی ہو گیا اور انھیں واپس لوٹنے کی اجازت دے دی ۔ عبداللہ بن زبیر ایک دن کی مہلت لے کر مکہ روانہ ہوگئے۔ بعد میں ان کا تعاقب کیا گیا مگر اس اثناء میں وہ کہیں دور جا چکے تھے۔ جب مروان کو اس صورت حال کا علم ہوا تو ولید سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بیعت کا وقت کھو دیا ۔ اب قیامت تک ان سے بیعت نہ لے سکو گے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا ۔ لٰہذا وہ27 رجب60 ہجری میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر شعب ابی طالب میں قیام کیا۔

مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفیوں کے بے شمار خطوط آنے کے بعد مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ اصل صورت حال معلوم کریں۔ مسلم رضی اللہ تعالی عنہ کے کوفہ پہنچے کے پہلے ہی دن بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر مسلم بن عقیل نے امام حسین کو کوفہ آنے کاخط لکھ دیا۔

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا سفر کوفہ
اہل مکہ اور مدینہ نے آپ کو کوفہ جانے سے باز رکھنے کے لیے پوری کوششیں کیں کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ طرز عمل ان کے سامنے تھا۔ عمرو بن عبدالرحمن ، عبداللہ ابن عباس ، عبداللہ بن زبیر سب نے مشورہ دیا کہ ’’چونکہ کوفہ یزید کی حکومت کے تحت ہے وہاں ان کی افواج اور سامان سب کچھ موجود ہے اور کوئی قابل اعتماد نہیں اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ مکہ ہی میں رہیں۔‘‘ عبداللہ ابن زبیر نے تجویز کیا کہ آپ مکہ میں رہ کر اپنی خلافت کی جدوجہد کریں ہم سب آپ کی مدد کریں گے ۔ لیکن جب امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ رضا مند نہ ہوئے تو حضرت عبداللہ ابن عباس نے آپ کو کوفہ کی بجائے یمن جانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ ’’اگر کوفہ کاسفر آپ کے نزدیک ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکھیے کہ وہ یزید کے حاکموں کو وہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں۔‘‘ لیکن امام حسین نے کہا کہ ’’اے ابن عمر میں جانتا ہوں کہ تم میرے خیر خواہ ہو ۔ لیکن میں عزم کر چکا ہوں۔‘‘ اس پر ابن عباس نے کہا کہ ’’اگر آپ نہیں مانتے تو کم از کم اہل و عیال کو ساتھ نہ لے جائیے مجھے ڈر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح آپ بھی بال بچوں کے سامنے ذبح کیے جائیں گے۔ ‘‘ لیکن ان تمام ترغیبات کے باوجود امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے فیصلہ پر قائم رہے اور بالآخر 3 ذوالحج 60 ھ کو مکمہ معظمہ سے کوفہ کے لیے چل پڑے۔
آپ نے اپنے سفر کے بارے میں کہا کہ۔۔میں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کوخواب میں دیکھا ہے اورمجھے ایک حکم دیا گیا ہے ،اس کی تعمیل کروں گا ،سرجائے خواہ رہے۔''پوچھا:''وہ خواب کیا ہے ؟'' فرمایا:''جب تک زندہ ہوں کسی سے نہ کہوں گا ۔'' یہ فرما کر روانہ ہوگئے ۔
(الکامل فی التاریخ،ذکرمسیرالحسین الی الکوفۃ.،ج۳،ص۳۹۹ ملخصا)


آپ کی روانگی کے بعد آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر خاوند حضرت زینب رضی اللہ عنہانے ایک عریضہ اپنے لڑکوں عون اور محمد کے ہاتھ روانہ کیا کہ :
” میں آپ کو اللہ تعالٰی کا واسطہ دیتا ہوں کہ جونہی میرا خط آپ کو ملے لوٹ آئیے کیونکہ جس جگہ آپ جارہے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہاں آپ کی ہلاکت اور آپ کے اہل بیت کی بربادی ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ ہلاک ہوگئے تو دنیا تاریک ہو جائے گی ۔ کیونکہ اس وقت آپ ہی ہدایت یافتہ لوگوں کا علم اور مومنوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ آپ واپسی سفر میں جلدی کیجیے ۔ میں بھی جلد آپ کے پاس پہنچتا ہوں “
حضرت عبداللہ بن جعفر ، عمر بن سعد حاکم مکہ کا سفارشی خط لے کر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے ملے اور انھیں بتایا کہ کوفہ کے لوگوں پر اعتماد مناسب نہیں ا بن سعد اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ آپ مکہ لوٹ آئیں تو میں یزید کے ساتھ آپ کے معاملات طے کرادوں گا اور آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ لیکن آپ نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق سفر کوفہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجبور ہو کر عبداللہ بن جعفر واپس ہو گئے مگر عون اور محمد کو ساتھ رہنے دیا۔ راستہ میں مشہور شاعر فرزوق آپ سے ملا اور امام حسین سے عرض کی۔
” لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ۔ قضاء الہی آسمان سے اتری ہے اور اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے “
لیکن آپ نے اس کے باوجود سفر کو بدستور جاری رکھا ۔

ابن زیاد کوفہ میں
ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ کوفہ پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم بن عقیل سے اپنی وفاداریاں توڑ لیں گے انہیں امان دی جائے گی ۔ اس کے بعد ہر محلہ کے رئیس کو بلایا اور اسے اپنے اپنے علاقہ کے امن و امان کا ذمہ دار قرار دے کر مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کی تلاش شروع کردی ۔ اس وقت مسلم ایک محب اہل بیت ہانی بن عروہ کے ہاں چلے گئے ۔ ابن زیاد نے ہانی کو بلا کر مسلم کو پیش کرنے کا حکم دیا اور ہانی نے انکار کر دیا جس پر انھیں قید میں ڈال کر مار پیٹ کی گئی۔

مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کی گرفتاری اور شہادت
شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل ہو گئے ۔ یہ خبر سنتے ہی مسلم رضی اللہ تعالی عنہ نے اٹھارہ ہزار ہمنواؤں کے ساتھ ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ ابن زیاد کے پاس اس وقت صرف پچاس آدمی موجود تھے۔ چنانچہ اس نے حکمت سے کام لیا اوران رئیسان کوفہ کی ترغیب سے لوگوں کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔آخر کام مسلم رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ صرف تیس آدمی رہ گئے ۔ مجبوراً مسلم بن عقیل نے ایک بڑھیا کے گھر پناہ لی لیکن اس بڑھیا کے بیٹے نے انعام کے لالچ میں آکر خود جا کر ابن زیاد کو اطلاع کر دی ۔ابن زیاد نے یہ اطلاع پا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت مسلم بن عقیل تن تنہا لڑنے پر مجبور ہوئے جب زخموں سے چور ہوگئے تو محمد بن اشعث نے امان دے کر گرفتار کر لیا ۔ لیکن آپ کو جب ابن زیاد کے سامنے پیش کیاگیا تو اس نے امان کے وعدہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے آپ کے قتل کا حکم دے دیا۔ مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعث سے کہا کہ میرے قتل کی اطلاع امام حسین تک پہنچا دینا اور انھیں میرا یہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ ’’اہل کوفہ پر ہرگز بھروسہ نہ کریں اور جہاں تک پہنچ چکے ہوں وہیں سے واپس چلے جائیں‘‘ ۔ ابن اشعث نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ایک قاصد حضرت امام حسین کی طرف روانہ کر دیا۔

ابن زیاد کی تیاریاں
ابن زیاد کے حکم سے فوج کے افسر حصین بن نمیر نے قادسیہ سے جبل لعل تک سواروں کو مقرر کر دیا اور تمام اہم راستوں کی ناکہ بندی کر دی ۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قاصد قیس کو ابن زیاد کے آدمیوں نے گرفتار کرکے قتل کر دیا ۔ جب آپ بطن رملہ سے آگے بڑھے تو انھیں عبداللہ ابن مطیع ملے ۔ انھوں نے آپ کو آگے جانے سے روکا محمد بن اشعث کے بھیجے ہوئے قاصد نے آپ کو مقام ثعلبیہ پر مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر دی ۔ اب آپ سفر کوفہ کے بارے میں متردد ہوئے۔ ساتھیوں نے واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن مسلم کے بھائیوں نے اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کی خاطر سفر جاری رکھنے کے لیے زور دیا۔ جس کے بعد پوزیشن واضح ہو گئی۔ آپ کے ساتھ دوران سفر بہت سے بدوی شامل ہو چکے تھے۔ آپ نے ان سب کو جمع کیا اور فرمایا جو لوگ واپس جانا چاہیں انہیں اجازت ہے۔ چنانچہ سوائے ان جان نثاروں کے جو مدینہ سے ساتھ آئے تھے سب ساتھ چھوڑ گئے۔

حر بن یزید تمیمی کی آمد
ابن زیاد نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی پیش قدمی روکنے کے لیے حر بن یزید تمیمی کو روانہ کیا۔ ذمی حشم کے مقام پر آپ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے کوفیوں کے خطوط کے دو تھیلے منگوا کر دکھائے اور کہا کہ ’’اب آپ لوگوں کی رائے بدل گئی ہے۔ تو میں واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ لیکن حر نے کہا کہ ہمیں تو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا سفر کوفہ جاری رکھا۔ آپ نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا ۔

جس میں اپنےمقاصد کی وضاحت کی ۔ آپ نے فرمایا:
” لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے ، خدا کا عہد توڑنے والے ، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے ۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے “

کچھ دور جاکر طرماج بن عدی سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے آپ کو یمن چلنے کی دعوت دی لیکن آپ نے یہ پیش کش شکریہ کے ساتھ ٹال دی ۔

میدان کربلا آمد
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا قافلہ اور حربن یزید کا لشکر ساتھ ساتھ آگے کی طرف چلتے رہے جہاں کہیں آپ کے قافلہ کا رخ صحرائے عرب کی طرف ہو جاتا حر آپ کو روک دیتا اور رخ پھیر کر کوفہ کی طرف کر دیتا۔ چلتے چلتے آپ نینوا پہنچے ۔ وہاں ابن زیاد کے ایک قاصد نے حر کو ایک خط پہنچایا جس میں حکم تھا
” جونہی میرا یہ خط اور میرا قاصد تم تک پہنچیں حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں کو جہاں وہ ہیں وہیں روک لو اور انھیں ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو جو بالکل چٹیل میدان ہو اور جہاں کوئی سبزہ اور پانی کا چشمہ وغیرہ نہ ہو میرا یہ قاصد اس وقت تک تمہارے ساتھ ساتھ رہے گا ۔ جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے تم نے اس کی حرف بحرف تعمیل کی “

حر نے تمام صورت حال سے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو آگاہ کیا اور کہا کہ ’’اب میں آپ کو اس جگہ نہ رہنے دوں گا ۔ ‘‘بالآخر یہ مختصر سا قافلہ 2 محرم الحرام61 ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں اترا۔ دوسرے ہی روز عمرا بن سعد 6 ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ ا بن سعد چونکہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے لڑنے کا خواہشمند نہ تھا س لیے قرہ بن سفیان کو آپ کے پاس بھیجا ۔ قرہ بن سفیان سے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ’’اگر تمہیں میرا آنا ناپسند ہے تو میں مکہ واپس جانے کے لیے تیار ہوں ۔‘‘
لیکن ابن زیاد نے اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ا بن سعد کو حکم دیا کہ اگر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بیعت نہ کریں تو ان کا پانی بند کردیا جائے:
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو ایسی حالت میں جب کہ وہ قابو میں آچکے تھے گرفتار کرنا زیادہ مناسب اور ضروری قرار دیا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے اپنی رائے تبدیل کر دی ۔ اور عمر بن سعد کو اس کی اس بات پر سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ. ’’اگر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور اس کے ساتھی اپنے آپ کو حوالہ کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو۔‘‘ شمر مع خط کے عمر بن سعد کے پاس پہنچا۔ عمر بن سعد اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف تلوار اٹھانے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ 9 محرم الحرام کا دن تھا۔

المیہ کربلا اور شہادت عظمٰی
صلح کی آخری گفتگو ناکام ہونے کے بعد امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہیں انھیں میری طرف سے اجازت ہے۔ اس پر کچھ جان نثار اور اعزہ باقی رہ گئے ۔ جنہوں نے آخری وقت تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ان جاں نثاروں کی تعداد صرف 72 تھی ۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مختصر ترین فوج کو منظم کیا۔ میمنہ پر زبیر بن قیس کو اور میسرہ پر حبیب بن مطہر کو متعین کرکے علم عباس رضی اللہ عنہ کو مرحمت فرمایا ۔ جنگ کے آغاز سے پیشتر اللہ تعالٰی کے حضور دعا کی اور ان سے تائید اور نصرت چاہی۔ اس کے بعد اتمام حجت کے لیے دشمنوں کی صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
” اے لوگو! جلدی نہ کرو ۔ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کاجو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو ۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی ۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے “

جونہی آپ تقریر کے اس حصے پر پہنچے تو خیموں سے اہل بیت کی مستورات کی شدت رنج سے چیخیں نکل گئیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے اور حضرت عباس کو انہیں چپ کرانے کے لیے بھیجا۔ جب خاموشی طاری ہوئی تو آپ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
” لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں ۔ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالٰیٰ کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے رسول پر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیار میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے۔ ہے ۔ تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ اور اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں سے وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی حدیث سنی ہے۔ تم ان سے دریافت کرسکتے ہو ۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا آپ کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے “
لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صرف حر بن یزید تمیمی پر آپ کی اس تقریر کا اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ
” یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے۔ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے “

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں آ شامل ہوا۔ اس کے بعد شخصی مبازرت کے طریقے سے جنگ کا آغاز ہوا جس میں اہل بیت اطہر کا پلہ بھاری رہا۔ یہ دیکھ کر ابن سعد نے عام حملہ کا حکم دیا ۔ فدایان و اراکین اہل بیت نے دشمنوں کی یلغاروں کا پوری قوت ایمانی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ فدائی ایک ایک کرکے کٹ مرے لیکن میدان جنگ سے منہ نہ پھیرا۔ دوپہر تک امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بیشتر آدمی کام آ چکے تھے۔ چنانچہ اب باری باری حضرت علی اکبر، عبداللہ بن مسلمہ ، جعفر طیار کے پوتے عدی ، عقیل کے فرزند عبدالرحمن ، حضرت حسن کے صاحبزادے قاسم اور ابوبکر وغیرہ میدان میں اترے اور شہید ہوئے۔ ان کے بعد امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ آئے۔ دشمنوں نے ہر طرف سے آپ پر یورش کی۔ یہ دیکھ کر آپ کے بھائی عباس ، عبداللہ ، جعفر اور عثمان آپ کی حفاظت کے لیے ڈٹ گئے مگر چاروں نے شہادت پائی۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ تنہا میدا میں جمے ہوئے تھے۔ عراقیوں نے آپ کو ہر طرف سے نرغہ میں لے لیا مگر شہید کرنے کی کسی کو بھی جرات نہ ہو رہی تھی کیونکہ کوئی نہ چاہتا تھا کہ یہ گناہ اس کے سر ہو۔ بالآخر شمر کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بدبختی مول لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوار کے وارکیے۔ سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ گر گئے۔ ان کے گرنے پر شمر ذی الجوشن آپ کی طرف بڑھا تو اس کی برص زدہ شکل دیکھتے ہی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے نانا رسولِ خدا نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے۔اے بدبخت شمر بلاشبہ تو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا نے خبر دی تھی۔ اس کے بعد شمر نے ان کا سر پیچھے کی طرف سے(پسِ گردن سے) کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔ روایات کے مطابق اللہ کے نبی حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا سر بھی اسی طرح پس گردن سے کاٹ کر جدا کیا گیا تھا۔ابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ کا سربریدہ جسم گھوڑوں کے ٹاپوں سے روندوا دیا گیا۔ بعد میں تمام شہدائے اہلِ بیت کے سر نیزوں کی نوک پر رکھ کر پہلے ابنِ زیاد کے دربار میں لے جائے گئے اور بعد میں دمشق میں یزید کے دربار میں لے جائے گئے۔یزید نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔

” کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئی نہ کوئی فرشتہ آیا ہے “(دمع السجوم ص 252)

اس شعر سے پتہ چلتا ہے کہ یزید کو بدر میں مسلمانوں کی فتح اور اپنے خاندان کے کفار سرداروں کی موت پر رنج تھا۔ العیاذ بااللہ

اس شعر کو سن کر اور یزید کا فخریہ انداز دیکھ کر دربار میں موجود ایک یہودی سفیر نے کہا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد سے ہوں۔ میرے اور ان کے درمیان ستر پشتیں گذر چکی ہیں مگر اس کے باوجود یہودی میری بے حد عزت و تکریم کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ تم نے اپنے نبی کے نواسے کو شہید کردیا ہے اور اب اس پر فخر بھی کر رہے ہو۔ یہ تمہارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
(خصائص الکبریٰ ، الصواحق المحرقہ)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ مٹی دی تھی اور فرمایا تھا کہ اے ام سلمیٰ جب یہ مٹی سرخ ہو جائے یعنی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین رضی اللہ تعالی عنہ شہید کر دیا گیا۔ ایک دن ان کی بیٹی ان سے ملنے گئیں تو آپ زارو قطار رو رہی تھیں۔ پوچھا گیا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ابھی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خواب میں تشریف لائے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپ کے سرِ انور اور ڈاڑھی مبارک پر مٹی تھی۔ میں نے پوچھا آقا یہ گرد کیسی تو فرمایا کہ اے ام سلمہ ابھی اپنے حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل کا منظر دیکھ کر میدانِ کربلا سے آرہا ہوں۔ جاگنے کے بعد میں نے وہ مٹی دیکھی جو انہوں نے مجھے دی تھی تو وہ خون ہو چکی تھی۔(بخاری شریف، مشکوٰۃ ، مستدرک الحاکم، خصائص الکبریٰ)

واقعہ حرہ ۔۔(اس کا تفصیلی ذکر کسی اور پوسٹ میں ہوگا)
شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی خبر جب سرزمین حجاز میں پہنچی تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس سانحہ پر اشکبار نہ ہو ۔ لٰہذا حجاز میں فوری طور پر انقلاب برپا ہوگیا۔ اہل مدینہ نے اموی حکام کو صوبہ سے نکال دیا اور عبداللہ بن زبیر کی بیعت کر لی۔ یزید نے ولید بن عقبہ کی ماتحتی میں شامیوں کی فوج روانہ کی۔ اس فوج میں عیسائی کثیر تعداد میں شامل تھے ۔ جب اہل مدینہ نے اطاعت قبول نہ کی تو ولید بن عقبہ نے شہر پر حملہ کرنے کا حکم دیا ۔ اہل مدینہ نے اگرچہ بڑی بے جگری سے لڑے لیکن شامی افواج سے ان کو شکست ہوئی ۔ اس جنگ میں بڑے بڑے اکابر مدینہ شہید ہوئے جن میں فضل بن عباس اور عبداللہ بن حنظلہ قابل ذکر ہیں۔ شہر پر قبضہ کے بعد مدینہ الرسول تین دن تک شامی فوجیوں کے ہاتھوں لٹتا رہا۔ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھ دئیے گئے اور تین دن مسجد نبوی میں نہ کوئی اذان ہوئی اور نہ ہی کوئی جماعت۔ مسلمانوں خواتین کی عزت و آبرو برباد ہوئی اور تین روز تک مسلسل قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بہت اہم ہے اور سانحہ کربلا کے بعد یزید کا دوسرا بڑا سیاہ کارنامہ قرار دیا جا تاہے۔

اہل بیت کی شام کو روانگی
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد اہل بیت اطہر کے بقیہ افراد پر مشتمل قافلہ ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچا ۔ یہ سیاہ بخت انسان اس خستہ حالت میں بھی افراد اہل بیت سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آیا۔ حضرت امام حسین کا کٹا ہوا سر ابن زیاد کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ ہر خاص و عام کو محل میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ابن زیاد سر مبارکہ کو دیکھ کر آپ کے لبوں پر بار بار چھڑی مارتا اور مسکراتا۔ صحابی رسول زید بن ارقم وہاں ایک کونے میں موجود تھے ان سے رہا نہ گیا تو فرمایا:

” ان لبوں سے چھڑی ہٹا لو۔ اللہ تعالٰیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ رسول اللہ ان ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے تھے “
یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ یہ سن کر ابن زیاد کے غضب کی کوئی حد نہ رہی بولا۔ ’’اللہ تیری دونوں آنکھیں رلائے۔ واللہ ! اگر تو بوڑھا ہو کر سٹھیا نہ گیا ہوتا اور تیری عقل ماری نہ گئی ہوتی تو میں تیری گردان اڑا دیتا ۔ ‘‘ یہ دیکھ کر زید بن ارقم مجلس سے اٹھتے ہوئے کہہ گئے:

” اے لوگو! آج کے بعد تم غلام بن گئے کیونکہ تم نے فاطمہ کے لخت جگر کو قتل اور ابن زیاد کو اپنا حاکم بنایا جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا اور شریروں کو نوازتا ہے “
کوفہ سے ابن زیاد نے حضرت امام حسین کا سر مبارک اور قافلہ اہل بیت کو دمشق بھجوا دیا۔ وہاں یزید نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو چھڑی سے چھیڑا اور فخر کا اظہار کیا۔ اور اشعار بھی پڑھے جس کا اوپر تذکرہ گزر چکا ہے۔

امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر واقعہ کربلا سے پہلے ہی مشہور تھی

حضور سرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ام المؤمنین حضرتِ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاکے کاشانہ میں تشریف فرماتھے ،ایک فرشتہ کہ پہلے کبھی حاضر نہ ہواتھا اللہ تبارک وتعالیٰ سے حاضری کی اجازت لے کر مشرف ملاقات ہوا،حضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ام المؤمنین سے ارشادفرمایا:دروازے کی نگہبانی رکھو،کوئی آنے نہ پائے ،اتنے میں سیدناامامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو ابھی چھوٹے بچے تھے) دروازہ کھول کر اندر تشریف لے آئے اور کُودکر حضور پرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی گودمیں جابیٹھے ،حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پیار فرمانے لگے ،فرشتے نے عرض کی: ''حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم انہیں چاہتے ہیں ؟ فرمایا: ہاں! عرض کی:'' وہ وقت قریب آتاہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت انہیں شہید کرے گی اور حضور چاہیں تووہ زمین حضورکو دکھا دوں جہاں یہ شہید کئے جائیں گے ۔ پھرسرخ مٹی اورایک روایت میں ہے ایک ہاتھ میں سرخ ریت،اور ایک میں ہاتھ میں کنکریاں ،حاضرکیں ۔حضورعلیہ الصلاۃو السلام نے سونگھ کر فرمایا: ''رِیْحُ کَرْبٍ وَّبَلاَء''بے چینی اوربلا کی بُوآتی ہے ،پھرام المؤمنین کو وہ مٹی عطاہوئی اور ارشاد ہوا: ''جب یہ خون ہوجائے توجاننا کہ حسین شہیدہوگیا ہے''انہوں نے وہ مٹی ایک شیشی میں رکھ چھوڑی ۔ اُم المؤمنین فرماتی ہیں:'' میں کہا کرتی جس دن یہ مٹی خون ہو جائے گی کیسی سختی کادن ہوگا۔''

(المعجم الکبیر،الحدیث ۲۸۱۷،۲۸۱۸،۲۸۱۹،ج۳،ص۱۰۸)

اہمیت
کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی ۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی ۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے ، راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جور جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور ہی بڑا روح فرسا ہےکہ اسلام کے نام لیواؤں پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کی جو خود کو مسلمان کہتے تھے مزید براں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا جو تعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اسے بھی ظالموں نے نگاہ میں نہ رکھا۔ نواسہ رسول کو میدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اورسر کی بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخو اعتنا ہی نہ سمجھا گیا ۔ اس سے یزید کے اعمال کی آمرانہ ذہنیت کا اظہار بھی ہوتا ہے یہاں یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح ، ملی ، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں توانسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے ۔ لٰہذا ان حقائق کی روشنی میں سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ اسلام کے نام پر سیاہ دھبہ ہے کیونکہ اس سے اسلامی نظام حکومت میں ایسی خرابی کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس سانحہ کو اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی قرار دیں تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہوگا کیونکہ جہاں تک حق و انصاف ، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کی نظام شورائیت کی نفی تھی لٰہذا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خداکی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی ۔ اور انھیں ریگ زار عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔
سچ ہے کہ
اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد
(ختم شد)


Sunday, 4 December 2016

⁠⁠⁠⁠⁠جشنِ عید میلاد النبی ﷺ پر کئے جانے والے پہلے 11 اعتراضات کے جوابات




⁠⁠⁠جشنِ عید میلاد النبی ﷺ پر کئے جانے والے پہلے 11اعتراضات کے جوابات

👈سوال1: رسول اﷲﷺ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے محققین میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے یعنی حضور ﷺ کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاول ہے ہی نہیں؟

جواب: حضور اکرم نور مجسمﷺ کی تاریخ ولادت میں محققین کا اختلاف ہے مگر جس تاریخ پر جمہور علماء متفق ہیں وہ تاریخ بارہ ربیع الاول ہے چنانچہ علمائے اسلام کی مستند کتب سے دلائل ملاحظہ ہوں۔

(1) دلیل: حافظ ابوبکر ابن ابی شیبہ متوفی 235ھ سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔ عفان سے روایت ہے کہ وہ سعید بن مینا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ حضور سید عالمﷺ کی ولادت عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع اول کو ہوئی۔

(بحوالہ: البدایہ والنہایہ جلد دوم صفحہ نمبر 302، بلوغ الامانی شرح الفتح الربانی جلد دوم صفحہ نمبر 189)

(2) دلیل: محدث علامہ ابن جوزی متوفی 597ھ فرماتے ہیں۔ اس بات پر تمام متفق ہیں کہ حضورﷺ کی ولادت عام الفیل میں پیر کے روز ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی اور اس کے تاریخ میں اختلاف ہے اور اس بارے میں چار اقوال ہیں چوتھا قول یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ولادت باسعادت ہوئی۔ (بحوالہ: صفۃ الصفوہ جلد اول صفحہ نمبر 22)

(3) دلیل: حضرت جابر رضی اﷲ عنہ اور ابن عباس رضی اﷲ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور سید عالمﷺ عام الفیل روز دوشنبہ بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور اسی روز آپﷺ کی بعثت ہوئی۔ اسی روز معراج ہوئی اور اسی روز ہجرت کی اور جمہور اہل اسلام کے نزدیک یہی تاریخ بارہ ربیع الاول مشہور ہے۔ (بحوالہ: سیرت ابن کثیر جلد اول صفحہ نمبر 199)

(4) دلیل: امام ابن جریر طبری علیہ الرحمہ جوکہ مورخ ہیں، اپنی کتاب تاریخ طبری جلد دوم صفحہ نمبر 125 پر فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کی ولادت پیر کے دن ربیع الاول شریف کی بارہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔

(5) دلیل: علامہ امام شہاب الدین قسطلانی شافعی شارح بخاری علیہ الرحمہ (متوفی 923ھ) فرماتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ دس ربیع الاول کو ولادت ہوئی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بارہ ربیع الاول کو ولادت ہوئی اور اسی پر اہل مکہ ولادت کے وقت اس جگہ کی زیارت کرتے ہیں اور مشہور یہ ہے کہ آپﷺ بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے اور یہ ابن اسحق کا قول ہے (بحوالہ: المواہب اللدینہ مع زرقانی جلد اول صفحہ نمبر 247)

(6) دلیل: علامہ امام محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی علیہ الرحمہ (متوفی 1122ھ) فرماتے ہیں (ربیع الاول ولادت) کا قول محمد بن اسحق بن یسار امام الغازی کا ہے اور اس کے علاوہ کا قول بھی ہے کہ ابن کثیر نے کہا۔ یہی جمہور کے نزدیک مشہور ہے۔ امام ابن جوزی اور ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، اسی پر عمل ہے۔ (بحوالہ: زرقانی شریف شرح مواہب جلد اول صفحہ نمبر 248)

(7) دلیل: علامہ امام نور الدین حلبی علیہ الرحمہ (متوفی 624ھ) فرماتے ہیں۔ تاجدار کائناتﷺ کی ولادت بارہ ربیع الاول شریف کو ہوئی اس پر اجماع ہے اور اب اسی پر عمل ہے شہروں میں خصوصا اہل مکہ اسی دن حضورﷺ کی ولادت کی جگہ پر زیارت کے لئے آتے ہیں (بحوالہ: سیرت حلبیہ جلد اول صفحہ نمبر 57)

(8) دلیل: علامہ امام قسطلانی وفاضل زرقانی رحمہم اﷲ فرماتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ حضور پرنورﷺ بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے۔ امام المغازی محمد بن اسحق وغیرہ کا یہی قول ہے۔

(9) دلیل: علامہ ابن خلدون علیہ الرحمہ جو علم تاریخ اور فلسفہ تاریخ میں امام تسلیم کئے جاتے ہیں بلکہ فلسفہ تاریخ کے موجد بھی یہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں حضورﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل کو ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔ نوشیرواں کی حکمرانی کا چالیسواں سال تھا (بحوالہ: تاریخ ابن خلدون صفحہ نمبر 710 جلد دوم)

(10) دلیل: مشہور سیرت نگار علامہ ابن ہشام (متوفی213ھ) عالم اسلام کے سب سے پہلے سیرت نگار امام محمد بن اسحق سے اپنی السیرۃ النبوۃ میں رقم طراز ہیں۔ حضور اکرم نور مجسمﷺ سوموار بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے (السیرۃ النبوۃ ابن ہشام جلد اول صفحہ نمبر 171)

(11) دلیل: علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی فرماتے ہیں۔ واقعہ اصحاب فیل کے پچاس روز بعد اور آپ کے والد کے انتقال کے بعد حضورﷺ بروز سوموار بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے (بحوالہ: اعلام النبوۃ صفحہ نمبر 192)

(12) دلیل: امام الحافظ ابوالفتح محمد بن محمد بن عبداﷲ بن محمد بن یحییٰ بن سید الناس الشافعی الاندلسی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں۔ ہمارے آقا و مولیٰﷺ سوموار کے روز بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے (بحوالہ: عیون الاثر جلد اول صفحہ نمبر 26)

(13) دلیل: گیارہویں صدی کے مجدد شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ جمہور اہل سیر وتواریخ کی یہ رائے ہے کہ حضورﷺ کی ولادت عام الفیل میں ہوئی اور یہ واقعہ فیل کے چالیس روز یا پچپن روز بعد اور یہ دوسرا قول سب اقوال سے زیادہ صحیح ہے۔ مشہور یہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور بارہ تاریخ تھی۔ بعض علماء نے اس قول پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے۔ یعنی سب علماء اس پر متفق ہیں (بحوالہ: مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ 15)

(14) دلیل: امام محمد ابوزہرہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علماء روایت کی ایک عظیم کثرت اس بات پر متفق ہے کہ یوم میلاد عام الفیل ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ ہے (بحوالہ: خاتم النبیین جلد اول صفحہ نمبر 115)

(15) دلیل: چودھویں صدی کے مجدد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سائل نے یہاں تاریخ سے سوال نہ کیا۔ اس میں اقوال بہت مختلف ہیں۔ دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس سات قول ہیں مگر اشہر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے۔ مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس کی زیارت کرتے ہیں۔ کمافی المواہب والمدارج (جیسا کہ مواہب اللدنیہ اور مدارج النبوۃ میں ہے) اور خاص اس مکان جنت نشان میں اس تاریخ مجلس میلاد مقدس ہوتی ہے (فتاویٰ رضویہ)

(16) دلیل: دور حاضر کے سیرت نگار محمد الصادق ابراہیم عرجون، جو جامعہ ازہر مصر کے کلیۃ اصول الدین کے عمید رہے ہیں، اپنی کتاب ’’محمد رسول اﷲ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ کثیر التعداد ذرائع سے یہ بات صیح ثابت ہوچکی ہے کہ حضور اکرمﷺ بروز دوشنبہ بارہ ربیع الاول عام الفیل کسریٰ نوشیروان کے عہد حکومت میں تولد ہوئے اور ان علماء کے نزدیک جو مختلف سمتوں کی آپس میں تطبیق کرتے ہیں۔ انہوں نے عیسوی تاریخ میں 20 اگست 570ھ بیان کی ہے (بحوالہ: محمد رسول اﷲ جلد اول صفحہ نمبر 102)

👈سوال2: رحمت کائنات ﷺ کی ظاہری حیات میں ربیع الاول کا مہینہ کم و بیش 63 مرتبہ آیا۔ کس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ نے اپنی ولادت کا دن منایا؟

جواب: سب سے پہلے میلاد کا لغوی معنی اور اصطلاحی معنی ملاحظہ فرمائیں:

لفظ میلاد کی لغوی تحقیق

میلاد عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ’’ولد (و۔ل۔د)‘‘ ہے۔ میلاد عام طور پر اس وقت ولادت کے معنوں میں مستعمل ہے۔ میلاد اسم ظرف زمان ہے۔ قرآن مجید میں مادہ ولد کل 93 مرتبہ آیا ہے اور کلمہ مولود 3 مرتبہ آیا ہے۔

(المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم ص 764-763)

احادیث نبویﷺ میں لفظ میلاد و مولد کا استعمال

احادیث نبویﷺ میں مادہ ولد (و۔ل۔د) بے شمار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وضاحت المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی میں موجود ہے

(المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی الجز السابع ص 320-308)

اردو میں لفظ میلاد

نور اللغات میں لفظ میلاد مولود۔ مولد کہ یہ معنی درج کئے گئے ہیں

1: میلاد ۔۔۔ پیدا ہونے کا زمانہ، پیدائش کا وقت

2: وہ مجلس جس میں پیغمبر حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جائے۔ وہ کتاب جس میں پیغمبر کی ولادت کا حال بیان کیا جاتا ہے۔

اصطلاحی مفہوم

میلاد کے لغوی مفہوم میں اس بات کی وضاحت ہوچکی ہے کہ اردو زبان میں اب یہ لفظ ایک خاص مفہوم کی وضاحت و صراحت اور ایک مخصوص اصطلاح کے طورپر نظر آتا ہے۔ حسن مثنی ندوی لکھتے ہیں ’’حضور اکرم نور مجسم محمدﷺ کی ولادت باسعادت کے تذکرے اور تذکیر کا نام محفل میلاد ہے۔ اس تذکرے اور تذکیر کے ساتھ ہی اگر دلوں میں مسرت و خوشی کے جذبات کروٹ لیں۔ یہ شعور بیدار ہوکہ کتنی بڑی نعمت سے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سرفراز کیا اور اس کا اظہار بھی ختم الرسلﷺ کی محبت و اطاعت اور خداوند بزرگ و برتر کی حمدوشکر کی صورت میں ہو اور اجتماعی طور پر ہو تو یہ عید میلاد النبیﷺ ہے۔

(سیارہ ڈائجسٹ لاہور رسول نمبر 1973ء (جلد دوم) ص 445)

قرآن مجید سے جشن ولادت منانے کے دلائل

* ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو‘‘ (سورۂ وَٱلضُّحَىٰ :11)
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ۔ ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں۔ کان، ہاتھ، پاؤں، جسم، پانی، ہوا، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے۔ خود اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ (النحل:18)

 معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ترجمہ ’’اﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے‘‘ (سورۂ آل عمران آیت 164)

 ﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا؟ ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبیﷺ ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبیﷺ کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں۔

 قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ ’’تم فرماؤ اﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے‘‘ (سورۃ یونس آیت 58)
لیجئے! اس آیت میں تو اﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیونکہ اﷲ کے نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ (الانبیاء :107)
مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کا جشن منائیں۔

احادیث مبارکہ سے جشن منانے کے دلائل

* اپنی آمد کا جشن تو خود آقاﷺ نے منایا ہے۔ تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں؟ چنانچہ حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول اﷲﷺ آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟‘‘ آپﷺ نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ (صحیح مسلم شریف جلد 1ص 7، مشکوٰۃ شریف ص 179)

نبی کے غلامو! خوش ہوجاؤ اور خوشی سے اپنے نبی کی آمد کا جشن منایا کرو کیونکہ یہ جشن تو خود آقاﷺ نے منایا ہے۔ اس کرہ ارض پر بسنے والے کسی بھی عالم دین (اگرچہ وہ صحیح عالم ہو) سے نبیﷺ کے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیجئے، اس کا جواب یہی ہوگا کہ نبیﷺ نے اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھا۔ نبی علیہ السلام اپنی آمد کی خوشی منائے اور نبی علیہ السلام کے غلام اپنے آقا کا جشن نہ منائیں۔ یہ کیسی محبت ہے؟ اسی لئے تو مسلمان ہر سال زمانے کی روایات کے مطابق جشن ولادت مناتے ہیں۔ کوئی روزہ رکھ کر مناتا ہے تو کوئی قرآن کی تلاوت کرکے، کوئی نعت پڑھ کر، کوئی درود شریف پڑھ کر، کوئی نیک اعمال کا ثواب اپنے آقاﷺ کی بارگاہ میں پہنچا کر تو کوئی شیرینی بانٹ کر، دیگیں پکوا کر غریبوں اور تمام مسلمانوں کوکھلا کر اپنے آقا کی ولادت کا جشن مناتاہے۔ یعنی زمانے کی روایات کے مطابق اچھے سے اچھا عمل کرکے اپنے آقاﷺ کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے۔ پس جو شخص نبیﷺ کو مانتا ہے تو وہ سنت نبویﷺ سمجھ کر اپنے آقا کی ولادت کاجشن منائے گا اور جو شخص نبی کو نہیں مانتا، وہ اس عمل سے دور بھاگے گا۔

* نبی اکرمﷺ کا چچا ابولہب جوکہ پکا کافر تھا۔ جب اسے اس کے بھائی حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا کیا گزری؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا‘‘ (بخاری شریف جلد 2ص 764)

اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے؟

(1) ابولہب وہ بدبخت انسان ہے جس کی مذمت میں قرآن کی ایک پوری سورۃ نازل ہوئی ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ اس کی آزاد کردہ باندی نے نبی اکرمﷺ کو دودھ پلایا تو اس کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ سہیلی وغیرہ نے اس خواب کا اتنا حصہ اور بیان کیاہے۔ ابولہب نے حضرت عباس سے یہ بھی کہا کہ دوشنبہ پیر) کو میرے عذاب میں کچھ کمی کردی جاتی ہے۔ علماء کرام نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضورﷺ کی تشریف آوری کی بشارت سنانے پر ثویبہ کو جس وقت ابولہب نے آزاد کیا تھا اسی وقت اس کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے‘‘ (تذکرہ میلاد رسول ص 18)

(2) شیخ محقق حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک:

’’میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرتﷺ کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے‘‘ (مدارج النبوۃ دوم ص 26)

(3) حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک:

’’جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور اقدسﷺ کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو حضور نبی کریمﷺ کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا۔ جو حضورﷺ کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو۔ مجھے اپنی جان کی قسم اﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا‘‘ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27)

(4) جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲعلیہ کا فرمان مبارک:

’’جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپﷺ کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپﷺ کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپﷺ کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے‘‘ (بیان المولد النبوی ص 70 بحوالہ مختصر سیرۃ الرسول ص 23)

ان محدثین کرام اور اسلاف کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبداﷲﷺ کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول اﷲﷺ کی آمد کا جشن مناکر کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا؟ بلکہ ابن الجزری نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا۔ سبحان اﷲ

👈سوال3: جشن ولادت کو ’’عید‘‘ کیوں کہتے ہو۔ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں، ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحی، یہ تیسری عید، عید میلاد النبی کہاں سے آگئی؟

جواب: اصل میں آپ لوگ ’’عید‘‘ کی تعریف سے ہی واقف نہیں اگر کچھ علم پڑھ لیاہوتا تو ایسی بات نہ کرتے۔

عید کی تعریف اور جشن میلاد کو عید کہنے کی وجہ

ابوالقاسم امام راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ (المتوفی 502ھ) عید کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عید اسے کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم النحر کے لئے خاص نہیں ہے۔ عید کا دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’عید کے ایام کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے ہیں‘‘ اس لئے ہر وہ دن جس میں خوشی حاصل ہو، اس دن کے لئے عید کا لفظ مستعمل ہوگیا ہے جیسا کہ اﷲ عزوجل کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے متعلق ارشاد ہے کہ ’’ہم پر آسمان سے خوان (کھانا) اتار کہ وہ ہمارے (اگلوں پچھلوں کے لئے) عید ہو‘‘ اور عید انسان کی اس حالت خوشی کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور ’’العائدۃ‘‘ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو‘‘

علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اﷲ علیہ کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوا کہ عید ہر اس دن کو کہتے ہیں

1: جس میں انسان کو کوئی خوشی حاصل ہو

2: جس میں اﷲ عزوجل کی طرف سے کوئی خصوصی رحمت و نعمت عطا ہوئی ہو۔

3: جسے کسی خوشی کے موقع سے کوئی خاص مناسبت ہو۔

الحمدﷲ عزوجل جل علی احسانہ! بارہ ربیع الاول کے موقع پر یہ تینوں صورتیں ہی جمع ہوتی ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ایک مسلمان کے لئے حضور نبی کریمﷺ کے ولادت پاک کے دن سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے؟ اس خوشی کے سبب بھی بارہ ربیع الاول کو عید کا دن قرار دیا جاتا ہے۔

آپﷺ جن کے صدقے ہمیں خدا کی پہچان ملی، ایمان کی لازوال دولت ملی، قرآن جیسا بابرکت تحفہ ملا جن کے صدقے زندگی گزارنے کا ڈھنگ آیا اور جن کی ذات اقدس ہمارے لئے سراپا رحمت ہے ان سے بڑھ کر کون سی رحمت اور کون سی نعمت ہے؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حواری خوان رحمت عطا ہونے والے دن کو عید کہہ سکتے ہیں اور وہ دن ان کے اگلوں پچھلوں کے لئے یوم عید ہوسکتا ہے تو ہم بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روز ولادت کو عید میلاد النبیﷺ کا نام دیں اور عید منائیں۔

کہتے ہیں کہ ’’کسی معتبر کتاب میں یوم میلاد کو عید نہیں لکھا گیا‘‘ فی الوقت میرے پاس موجود کتاب کے اعتبار کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے اور تمام علمائے دیوبند نے اس کتاب کو اپنی تحریروں کی وقعت ظاہر کرنے کے لئے حوالہ دے کر جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے اور نشرالطیب تو اس کتاب کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے اور معترضین کی مزید تسلی کے لئے عرض ہے کہ اس کتاب کے عربی متن کے اردو ترجمہ پر تعریفی تقاریظ علمائے دیوبند نے لکھی ہیں۔ اس کتاب کا نام ’’مواہب لدنیہ‘‘ ہے ترجمہ کو ’’سیرۃ محمدیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

امام احمد بن محمد بن ابی بکر الخطیب قسطلانی رحمتہ اﷲ علیہ کی یہ کتاب پانچ سو برس پرانی ہے۔ اس کی شرح ’’زرقانی‘‘ آٹھ ضخیم جلدوں میں علامہ ابو عبداﷲ محمد زرقانی نے لکھی جو اہل علم میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ 1338 ہجری میں جن علمائے دیوبند نے اس کتاب پر تعریفی تقاریظ لکھیں ان کے نام بھی ملاحظہ فرمالیں۔

* جناب محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند و مفتی عالیہ عدالت ممالک سرکار آصفیہ نظامیہ * جناب محمد حبیب الرحمن مددگار مہتمم دارالعلوم دیوبند * جناب اعزاز علی مدرس ، مدرسہ دیوبند * جناب سراج احمد رشیدی مدرس، مدرسہ دیوبند * جناب محمد انور معلم، دارالعلوم دیوبند

اس کتاب کے صفحہ 75 پر امام قسطلانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’اﷲ تعالیٰ اس مرد پر رحم کرے جس نے آنحضرت ﷺ کی ولادت کے مبارک مہینہ کی راتوں کو ’’عیدین‘‘ اختیار کیا ہے تاکہ اس کا یہ (عید) اختیار کرنا ان لوگوں پر سخت تر بیماری ہو جن کے دلوں میں سخت مرض ہے اور عاجز کرنے والی لادوا بیماری، آپ کے مولد شریف کے سبب ہے۔ معتبر کتاب سے مطلوبہ لفظ ’’عید‘‘ ملاحظہ فرمالیا۔ اگر امام قسطلانی کی تحریر سے اتفاق نہیں تو مذکورہ علمائے دیوبند کو ملامت کیجئے جنہوں نے اس کتاب کو بہترین اور اس کے ترجمہ کو بہت بڑی نیکی لکھا ہے۔

👈سوال4: صحابہ کرام علیہم الرضوان جو آپﷺ سے مثالی اور بے لوث محبت کرتے تھے۔ آپﷺ کے وصال کے بعد کبھی جشن عید میلاد النبی منایا؟

جواب: جی ہاں! صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی حضور پرنورﷺ کا میلاد منایا اور سرور کونینﷺ کے سامنے منعقد کیا۔ میرے رسولﷺ نے منع کرنے کے بجائے خوشی کا اظہار فرمایا۔

جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ بارگاہ رسالتﷺ میں قصیدہ پڑھ کر جشن ولادت منایا کرتے تھے۔

حدیث: سرکارﷺ خود حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے لئے منبر رکھا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر سرکارﷺ کی تعریف میں فخریہ اشعارپڑھیں۔ سرکارﷺ حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے فرماتے اﷲ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے (بحوالہ: بخاری شریف جلد اول صفحہ نمبر 65)

حدیث: حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں سرکارﷺ کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ عنہ کے گھر گیا۔ وہ اپنی اولاد کوحضورﷺ کی ولادت کے واقعات سکھلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج کا دن ہے۔ سرکارﷺ نے اس وقت فرمایا اﷲ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے رحمت کا دروازہ کھول دیا اور سب فرشتے تم لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں جو شخص تمہاری طرح واقعہ میلاد بیان کرے اس کو نجات ملے گی۔ (بحوالہ رضیہ التنویر فی مولد سراج المنیر)

میلاد کے لغوی اور اصطلاحی معنی محافل منعقد کرکے میلاد کا تذکرہ کرنا ہے جو ہم نے دو حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ آپ لوگ میلاد کی نفی میں ایک حدیث لاکر دکھادو، جس میں واضح طور پر یہ لکھا ہو کہ میلاد نہ منایا جائے۔ حالانکہ کئی ایسے کام ہیں جوصحابہ کرام نے نہیں کئے مگر ہم اسے کرتے ہیں کیونکہ اس کام کے کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے لہذا وہ کام جائز ہیں۔

👈سوال5: کیا علمائے امت کے اقوال و افعال سے جشن عیدمیلاد النبیﷺ کا ثبوت ملتا ہے؟

جواب: اس امت کے بڑے بڑے مفتیان کرام، علماء کرام، مفسرین، محدثین، شارحین اور فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں جشن عید میلاد النبیﷺ منانے کو باعث اجر وثواب لکھا ہے، چنانچہ علمائے امت کے اقوال ملاحظہ ہوں۔

1۔ حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ (المتوفی 150ھ) آپ رحمتہ اﷲ علیہ کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کی دینی خدمات اس قدر ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان ان شاء اﷲ عزوجل تا قیامت کے علم سے مستفید رہیں گے۔ آپ رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ اپنے ’’قصیدہ نعمانیہ‘‘ میں حضور نبی اکرمﷺ کا میلاد شریف یوں بیان کرتے ہیں:

یعنی! ’’آپﷺ ہی وہ ہیں کہ اگر آپﷺ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا اور آپ پیدا نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ پیدا کیا جاتا۔ آپﷺ وہ ہیں جن کے نور سے چودھویں کا چاند منور ہے اور آپﷺ ہی کے نور سے یہ سورج روشن ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام آپ کی خوشخبری سنانے آئے اور آپﷺ کے حسن صفات کی خبر لے کر آئے‘‘ (قصیدۂ نعمانیہ، صفحہ 196، 195ء)

2۔ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ (المتوفی 204ھ) آپ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’میلاد شریف منانے والا صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا‘‘ (النعمتہ الکبریٰ بحوالہ ’’برکات میلاد شریف‘‘ ص 6)

3۔ حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ (المتوفی 241ھ) آپ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں ’’شب جمعہ، شب قدر سے افضل ہے کیونکہ جمعہ کی رات سرکار علیہ السلام کا وہ نور پاک اپنی والدہ سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کے مبارک رحم میں منتقل ہوا جو دنیا و آخرت میں ایسی برکات و خیرات کا سبب ہے جوکسی گنتی و شمار میں نہیں آسکتا‘‘ (اشعتہ اللمعات)

4۔ امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (المتوفی 606ھ) فرماتے ہیں کہ ’’جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا۔ اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا تو ایسا شخص برکت نبوی سے محتاج نہ ہوگا اور نہ ہی اس کا ہاتھ خالی رہے گا‘‘ (النعمتہ الکبری، بحوالہ برکات میلاد شریف ص 5)

5۔ حضرت امام سبکی رحمتہ اﷲ علیہ (المتوفی 756ھ) آپ رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے ’’قصیدہ تائیہ‘‘ کے آخر میں حضور نبی کریمﷺ کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔

ترجمہ ’’میں قسم اٹھاتا ہوں کہ اگر تمام دریا و سمندر میری سیاہی ہوتے اور درخت میرا قلم ہوتے اور میں آپﷺ کی عمر بھر نشانیاں لکھتا تو ان کا دسواں حصہ بھی نہ لکھ پاتا کیونکہ آپ کی آیات و صفات ان چمکتے ستاروں سے بھی کہیں زیادہ ہیں‘‘ (نثرالدرر علی مولد ابن حجر، ص 75)

6۔ حافظ ابن کثیر (المتوفی 774ھ) فرماتے ہیں ’’رسول اﷲﷺ کی ولادت کی شب اہل ایمان کے لئے بڑی شرافت، عظمت، برکت اور سعادت کی شب ہے۔ یہ رات پاکی ونظافت رکھنے والی، انوار کو ظاہر کرنے والی، جلیل القدر رات ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس رات میں وہ محفوظ پوشیدہ جوہر ظاہر فرمایا جس کے انوار کبھی ختم ہونے والے نہیں‘‘ (مولد رسولﷺ، صفحہ 262)

7۔ امام حافظ بن حجر رحمتہ اﷲ علیہ (المتوفی 852ھ) نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ’’میرے لئے اس (محفل میلاد) کی تخریج ایک اصل ثابت سے ظاہر ہوئی، دراصل وہ ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے:

ترجمہ ’’حضور نبی کریمﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے، جس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی، ہم اس دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھتے تھے‘‘

(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء ، رقم الحدیث 2004،

ص 321)

(صحیح المسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء رقم الحدیث 2656، ص 462)

علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے کسی معین دن میں احسان فرمانے پر عملی طور پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ پھر فرماتے ہیں حضور سرور کائنات نبی رحمتﷺ کی تشریف آوری سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے (نثرالدر علی مولد ابن حجر، ص 47)

8۔ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ (المتوفی 911ھ) آپ فرماتے ہیں کہ میلاد النبیﷺ کے سلسلہ میں منعقد کی جانے والی یہ تقریب سعید (مروجہ محافل میلاد) بدعت حسنہ ہے جس کا اہتمام کرنے والے کو ثواب ملے گا۔ اس لئے کہ اس میں حضور نبی کریمﷺ کی تعظیم، شان اور آپ کی ولادت باسعادت پر فرحت و مسرت کا اظہار پایا جاتا ہے (حسن المقصد فی عمل المولد، ص 173)

9۔ امام ملا علی قاری علیہ رحمتہ الباری (المتوفی 1014ھ) آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’جب میں ظاہری دعوت وضیافت سے عاجز ہوا تو یہ اوراق میں نے لکھ دیئے تاکہ یہ معنوی ضیافت ہوجائے اور زمانہ کے صفحات پر ہمیشہ رہے، سال کے کسی مہینے سے مختص نہ ہو اور میں نے اس کا نام ’’الموردالروی فی مولد النبیﷺ‘‘ رکھا ہے (المورد الروی ص 34)

10۔ حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’ہمیشہ مسلمان ولادت پاک کے مہینے میں محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں اور دعوتیں کرتے ہیں اور اس ماہ کی راتوں میں ہر قسم کا صدقہ کرتے ہیں، خوشی مناتے ہیں، نیکی زیادہ کرتے ہیں اور میلاد شریف پڑھنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں‘‘ (انوار محمدیہ ص 29)

11۔ مفتی مکہ مکرمہ حضرت سید احمد زینی شافعی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’میلاد شریف کرنا اور لوگوں کا اس میں جمع ہونا بہت اچھا ہے‘‘ (سیرۃ نبوی ص 45)

ایک اور جگہ حضور مفتی مکہ مکرمہ فرماتے ہیں ’’محافل میلاد اور افکار اور اذکار جو ہمارے ہاں کئے جاتے ہیں ان میں سے اکثر بھلائی پر مشتمل ہیں جیسے صدقہ ذکر، صلوٰۃ و سلام، رسول خداﷺ پر اور آپ کی مدح پر‘‘ (فتاویٰ حدیثیہ ص 129)

12۔ محدث کبیر علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’یہ عمل حسن (محفل میلاد) ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ، مصر، یمن و شام تمام بلاد عرب اور مشرق و مغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے اور وہ میلاد النبیﷺ کی محفلیں قائم کرتے اور لوگ جمع ہوتے ہیں‘‘ (المیلاد النبوی ص 35-34)

13۔ استاد مسجد حرام مکہ مکرمہ شیخ محمد بن علوی المالکی الحسنی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’حضورﷺ اپنی میلاد شریف کے دن کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر اسے بہت بڑا اور عظیم واقعہ قرار دیتے ہیں اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا فرماتے کہ یہ آپ کے لئے بہت بڑا انعام و اکرام و نعمت ہے۔ نیز اس لئے کہ تمام کائنات پر آپ کے وجود مسعود کو فضیلت حاصل ہے‘‘ (حوال الامتفال بالمولد النبوی شریف ص 9,8)

14۔ علامہ شہاب الدین احمد بن محمد المعروف امام قسطلانی فرماتے ہیں ’’حضورﷺ کے پیدائش کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانے پکاتے رہے اور دعوت طعام کرتے رہے ہیں۔ اور ان راتوں میں انواع و اقسام کی خیرات کرتے رہے اور سرور ظاہر کرتے چلے آئے ہیں‘‘ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27)

15۔ حضرت امام ابن جوزی رحمتہ اﷲ علیہ کے پوتے فرماتے ہیں ’’مجھے لوگوں نے بتایا کہ جو ملک مظفر (بادشاہ وقت) کے دسترخوان پر میلاد شریف کے موقع پر حاضر ہوئے کہ اس کے دسترخوان پر پانچ ہزار بکریوں کے بھنے ہوئے سر، دس ہزار مرغ، ایک لاکھ پیالی مکھن کی اور تیس طباق حلوے کئے تھے اور میلاد میں اس کے ہاں مشاہیر علماء اور صوفی حضرات حاضر تھے۔ ان سب کو خلعتیں عطا کرتا تھا۔ اور خوشبودار چیزیں سنگھاتا تھا اور میلاد پاک پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا (سیرۃ النبوی 45)

16۔ حضرت شاہ احمد سعید مجددی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’جس طرح آپ خود اپنی ذات پر درود وسلام بھیجا کرتے تھے، ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں، کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں (ان کے) ذریعے شکر بجالائیں‘‘ (اثبات المولد والقیام ص 24)

17۔ پیران پیر حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو سرکار دوعالمﷺ کے حضور نذرونیاز پیش فرماتے تھے (قرۃ الناظر ص 11)

18۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اپنے والد شاہ عبدالرحیم رحمتہ اﷲ علیہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں ’’میرے والد نے مجھے خبر دی کہ میں عید میلاد النبیﷺ کے روز کھانا پکوایا کرتا تھا۔ ایک سال تنگدست تھا کہ میرے پاس کچھ نہ تھا مگر صرف بھنے ہوئے چنے تھے۔ میں نے وہی چنے تقسیم کردیئے۔ رات کو سرکار دوعالمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا اور کیا دیکھتا ہوں کہ حضورﷺ کے سامنے وہی چنے رکھے ہیں اور آپ خوش ہیں‘‘ (درثمین ص 8)

19۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے (الدرالمنظم ص 89)

20۔ مفتی اعظم شاہ محمد مظہر اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ 12 ربیع الاول کو ہر سال بڑے تزک احتشام سے محفل میلاد منعقد کراتے، جو نماز عشاء سے نماز فجر تک جاری رہتی پھر کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کیا جاتا اور مٹھائی تقسیم ہوتی، کھانا کھلایا جاتا (تذکرہ مظہر مسعود ص 176)

علامہ ابن جوزی مولد العروس کے ص 9 پر فرماتے ہیں:

وجعل لمن فرح بمولدہ حجابا من النار و سترا، ومن انفق فی مولدہ درہما کان المصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم لہ شافعا ومشفعا

(اور جو پیارے مصطفیﷺ کے میلاد شریف کی خوشی کرے، وہ خوشی، دوزخ کی آگ کے لئے پردہ بن جائے اور جو میلاد رسول اﷲﷺ میں ایک درہم بھی خرچ کرے، حضورﷺ اس کی شفاعت فرمائیں گے اور ان کی شفاعت مقبول ہوگی)

اور ص 28پر محدث ابن جوزی یہ اشعار لکھتے ہیں

یا مولد المختار کم لک من ثنا۔۔۔ ومدائح تعلو وذکر یحمد

یالیت طول الدھر عندی ذکرہ۔۔۔ یالیت طول الدھر عندی مولد

(اے میلاد رسولﷺ تیرے لئے بہت ہی تعریف ہے اور تعریف بھی ایسی جو بہت اعلیٰ اور ذکر ایسا جو بہت ہی اچھا ہے۔ اے کاش طویل عرصے تک میرے پاس نبی پاکﷺ کا تذکرہ ہوتا، اے کاش طویل عرصے تک میرے پاس ان کا میلاد شریف بیان ہوتا)

اور ص 6 پر یہ شعر لکھتے ہیں

فلوانا عملنا کل یوم۔۔۔ لاحمد مولدا فدکان واجب

(اگر ہم رسول کریمﷺ کا روزانہ میلاد شریف منائیں تو بلاشبہ یہ ہمارے لئے واجب ہے)

23۔محدث ابن جوزی اپنے رسالہ المولد کے آخر میں لکھتے ہیں

اہل حرمین شریفین اور مصرویمن اور شام اور عرب کے مشرق ومغربی شہروں کے لوگ نبیﷺ کے میلاد کی محفلیں کرتے ہیں، ربیع الاول کا چاند دیکھ کر خوشیاں مناتے ہیں، غسل کرکے اچھے کپڑے پہنتے ہیں طرح طرح کی زینت کرتے ہیں اور خوشبو لگاتے ہیں اور نہایت خوشی سے فقراء پر صدقہ خیرات کرتے ہیں اور نبیﷺ کے میلاد شریف کا ذکر سننے کے لئے اہتمام بلیغ کرتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے سے بے پناہ اجر اور عظیم کامیابی پہنچتی ہے جیسا کہ تجربہ ہوچکا کہ نبیﷺ کے میلاد شریف منانے کی برکت سے اس سال میں خیروبرکت کی کثرت، سلامتی و عافیت، رزق میں کشادگی، اولاد میں مال میں زیادتی اور شہروں میں امن اور گھروں میں سکون و قرار پایا جاتا ہے (الدرالمنظم ص 101-100)

24۔ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:

’’حضرت ایشاں فرموند کہ دوازدہم ربیع الاول‘‘ بہ حسب دستور قدیم ’’قرآن واندم و چیزے نیاز آں حضرتﷺ قسمت کردم وزیارت موئے شریف نمودم، در اثنائے تلاوت ملاء اعلیٰ حاضر شدند وروح پرفتوح آن حضرتﷺ بہ جانب ایں فقیر و دست واران ایں فقیر بہ غایت التفات فرموداراں ساعت کہ ملاء اعلیٰ و جماعت مسلمین کہ بافقیر بود بہ ناز ونیائش صعودی کنندہ برکات ونفحات ازاں حال نزول می فرماید‘‘ (ص 74، القول الجلی)

(حضرت شاہ ولی اﷲ نے فرمایا کہ قدیم طریقہ کے موافق بارہ ربیع الاول (یوم میلاد مصطفیﷺ) کو میں نے قرآن مجید کی تلاوت کی اور آنحضرتﷺ کی نیاز کی چیز کھانا وغیرہ) تقسیم کی اور آپﷺ کے بال مبارک کی زیارت کروائی۔ تلاوت کے دوران (مقرب فرشتے) ملاء اعلیٰ (محفل میلاد میں) آئے اور رسول اﷲﷺ کی روح مبارک نے اس فقیر (شاہ ولی اﷲ) اور میرے دوستوں پر نہایت التفات فرمائی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ ملاء اعلیٰ (مقرب فرشتے) اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی جماعت (التفات نبویﷺ کی برکت سے) ناز ونیائش کے ساتھ بلند ہورہی ہے اور (محفل میلاد میں) اس کیفیت کی برکات نازل ہورہی ہیں)

فیوض الحرمین میں حضرت شاہ ولی اﷲ نے مکہ مکرمہ میں مولد رسولﷺ میں اہل مکہ کا میلاد شریف منانا اور انوار وبرکات منانے کی برکتیں پانے کا تذکرہ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی کی اپنی زبان سے ملاحظہ کرنے کے بعد خود کو ولی اللہی افکار و نظریات کے پیروکار کہلانے والے مزید ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ الدلائل مولانا شیخ عبدالحق محدث الہ آبادی نے میلاد و قیام کے موضوع پر ایک تحقیقی کتاب لکھی جس کا نام ’’الدرالمنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظم‘‘ﷺ ہے۔ اس کتاب کے بارے میں علمائے دیوبند کے پیرحضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی فرماتے ہیں:

’’مولف علامہ جامع الشریعہ والطریقہ نے جو کچھ رسالہ الدر المنظم فی بیان حکم مولد النبی الاعظم میں تحریر کیا، وہ عین صواب ہے، فقیر کا بھی یہی اعتقاد ہے اور اکثر مشائخ عظام کو اسی طریقہ پر پایا، خداوند تعالیٰ مولف کے علم و عمل میں برکت زیادہ عطا فرماوے‘‘ (الدرالمنظم ص 146)

یہ کتاب ’’الدرالمنظم‘‘ علمائے دیوبند کی مصدقہ ہے۔ جناب محمد رحمت اﷲ مہاجر مکی، جناب سید حمزہ شاگرد جناب رشید احمد گنگوہی، جناب عبداﷲ انصاری داماد جناب محمد قاسم نانوتوی، جناب محمد جمیل الرحمن خان ابن جناب عبدالرحیم خان علمائے دیوبند کی تعریف وتقاریظ اس کتاب میں شامل ہیں۔ جناب محمد قاسم نانوتوی کے داماد نے اپنی تحریر میں جناب احمد علی محدث، جناب عنایت احمد، جناب عبدالحئی، جناب محمد لطف اﷲ، جناب ارشاد حسین، جناب محمد ملا نواب، جناب محمد یعقوب مدرس، اکابر علمائے دیوبند کا محافل میلاد میں شریف ہونا، سلام وقیام اور مہتمم مدرسہ دیوبند حاجی سید محمد عابد کا اپنے گھر میں محفل میلاد کروانے کا تذکرہ کیا اور جناب محمد قاسم نانوتوی کے لئے اپنی اور پیر جی واجد علی صاحب کی گواہی دی ہے کہ نانوتوی صاحب محفل میلاد میں شریک ہوتے تھے۔

الدر المنظم کتاب کا ساتواں باب ان اعتراضات کے جواب میں ہے جو میلاد شریف کے مخالفین کرتے ہیں یا کرسکتے ہیں۔ جی تو میرا یہی چاہتا ہے کہ یہ باب پورا ہی نقل کردوں تاہم مولانا عبدالحق محدث الہ آبادی نے اپنی کتاب کے ساتویں باب میں جن اہل علم ہستیوں کی تحریروں سے میلاد شریف کا جواز (جائز ہونا)پیش کیا ہے، ان تمام کے نام اور ان کی کتابوں کے نام اسی ترتیب سے نقل کررہا ہوں جس ترتیب سے مولانا عبدالحق نے نقل کئے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:

1۔ مولانا محمد سلامت اﷲ مصنف اشباع الکلام فی اثبات المولد والقیام

2۔ امام ابو محمد عبدالرحمن بن اسمٰعیل المعروف ابی شامہ، المصنف الباعث علی انکار البدع والحوادث

3۔ علامہ محمد بن یوسف شامی، سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد (سیرۃ شامی)

4۔ علامہ امام جلال الدین سیوطی، مصباح الزجاجہ علی سنن ابن ماجہ، الرسالہ حسن المقصد فی عمل المولد

5۔ امام حافظ ابو الخیر شمس الدین الجزری، عرف التعریف بالمولد الشریف

6۔ شیخ ابوالخطاب بن عمر بن حسن کلبی المعروف ابن وجیہ اندلسی، سماہ التنویر فی مولد البشیر النذیر

7۔ امام ناصر الدین المبارک المعروف ابن بطاح، فی فتویٰ

8۔ امام جمال الدین بن عبدالرحمن بن عبدالملک

9۔ امام ظہیر الدین بن جعفر

10۔ علامہ شیخ نصیر الدین طیالسی

11۔ امام صدر الدین موہوب بن عمر الشافعی

12۔ امام محدث ابن جوزی، المولد العروس، المیلاد النبوی

13۔ امام ملا علی قاری حنفی، المورد الروی فی موالد النبوی

14۔ امام شمس الدین سخاوی

15۔ علامہ شیخ شاہ عبدالحق محدث دہلوی، ماثبت من السنہ ومدارج النبوۃ

16۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی، الدر الثمین، فیوض الحرمین، الانبتاہ

17۔ شاہ اسماعیل دہلوی فی فتویٰ

18۔ علامہ شاہ محمد اسحق، فی فتویٰ

19۔ علامہ جمال الدین مرزا احسن علی لکھنؤی فی فتویٰ

20۔ مفتی محمد سعد اﷲ فی فتویٰ

21۔ علامہ شیخ جمال الفتنی حفنی، مفتی مکہ فی فتویٰ

22۔ علامہ شہاب الدین خفاجی، رسالہ عمل المولد

23۔ علامہ عبدالرحمن سراج بن عبداﷲ حنفی، مفتی مکہ فی فتویٰ

24۔ علامہ ابوبکر حجی بسیونی مالکی، مکہ فی فتویٰ

25۔ علامہ محمد رحمتہ اﷲ مفتی مکہ فی فتویٰ

26۔ علامہ محمد سعید بن محمد باصیل شافعی، مفتی مکہ فی فتویٰ

27۔ علامہ خلف بن ابراہیم حنبلی، مفتی مکہ فی فتویٰ

28۔ شاہ عبدالغنی نقشبندی فی فتویٰ

29۔ علامہ حافظ شمس الدین ابن ناصر الدین الد مشقی، مورد الصاوی فی مولد الہادی، جامع الاسرار فی مولد النبی المختار، اللفظ الرائق

30۔ علامہ ابو عبداﷲ محمد زرقانی، شرح مواہب لدنیہ

31۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی، فی فتویٰ

32۔ شاہ رفیع الدین دہلوی، فی فتویٰ

33۔ امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی،مکتوبات

34۔ مولانا محمد مظہر، مقامات سعیدیہ

35۔ مولانا کرامت علی جون پوری، رسالتہ الفیصلہ

36۔ امام بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح بخاری

کتاب المدرالمنظم کا ساتواں باب ص 93 سے شروع ہوکر ص 136 تک چالیس صفحات کی ضخامت میں سمایا ہوا ہے۔ اہل علم شخصیات کے ناموں کی مذکورہ فہرست میں ان ہستیوں اور کتابوں کے نام نہیں لکھے گئے جن کی تحریروں سے دلائل کو ثابت کرنے کے لئے استفادہ کیا گیا ہے۔
غیرمقلدین اہلحدیث فرقے کے پیشوا نواب سید محمد صدیق حسن خان لکھتا ہے کہ میلاد کا ذکر سن کر جس کے دل کو فرحت حاصل نہ ہو وہ مسلمان نہیں

👈سوال6: اگر انبیاء کرام کی تاریخ ولادت پر ہر سال جشن منانا جائز تھا، تو کیا آپﷺ نے اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام یا کسی دوسرے نبی کایوم ولادت منایا؟

جواب: جی ہاں! سرور کونینﷺ نے انبیاء کرام علیہم السلام کا یوم ولادت بھی منایا اور ان کی یاد بھی منائی اور صحابہ کرام کو بھی تعلیم دی

حدیث: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جب سرکار اعظمﷺ مدینہ شریف تشریف لائے۔ یہود کو آپﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا ہم اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں (غور فرمائیں! حضورﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے صحابہ گواہ ہوجاؤ! ہم کبھی عاشورہ کا روزہ نہیں رکھیں گے کیونکہ یہ روزہ یہودیوں کا شعار بن گیا ہے بلکہ اس پر سرکار اعظمﷺ نے فرمایا) ہم تم سے موسیٰ کے زیادہ چاہنے والے ہیں پھر آپ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا۔( سرکار اعظمﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خوشی منائی)

(بحوالہ: بخاری شریف، جلد دوم، کتاب المناقب، رقم الحدیث 1126، ص 537، مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور)

الحدیث: ابوالاشعت صنعانی نے حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا تمہارے تمام دنوں میں جمعہ کا روز سب سے افضل ہے کہ اسی میں حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور اسی میں ان کی روح قبض کی گئی اور اسی میں صور پھونکا جائے گا اور اسی میں سب بے ہوش ہوں گے۔ پس اس روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود پڑھنا مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یارسول اﷲﷺ اس وقت بھلا ہمارا درود پڑھنا کس طرح پیش ہوگا جبکہ آپﷺ انتقال کرچکے ہوں گے؟ فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے جسم کو زمین پر حرام فرمادیا ہے۔ (ابو داؤد جلد اول، کتاب الصلوٰۃ، رقم الحدیث 1034، ص 399، مطبوعہ فرید بک لاہور)

حدیث: حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار اعظمﷺ نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلام کوپیدا کیا گیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

ہم ہر جمعہ حضرت آدم علیہ السلام کا میلاد مناتے ہیں کیونکہ سرکار اعظمﷺ نے فرمایا ہے۔

حدیث: سرکار اعظمﷺ شب معراج جب براق پر تشریف رکھ کر جانے لگے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام بیت اللحم پر آپ سے عرض کرتے ہیں کہ یہاں اتر کردو رکعت نما زپڑھئے کیونکہ یہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت گاہ ہے (بحوالہ، نسائی ،طبرانی)

جب مقام ولادت انبیاء کی زیارت اور نماز پڑھنا سنت ہے تو پھر یوم ولادت منانا کتنا افضل ہوگا۔

سرکار اعظمﷺ نے خود میلاد منایا

حدیث: حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالتﷺ میں عرض کی گئی یارسول اﷲﷺ آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی (بحوالہ صحیح مسلم)

حدیث: بیہقی اور طبرانی شریف میں ہے کہ سرکار اعظمﷺ نے اعلان نبوت کے بعد ایک موقع پر بکرے ذبح کرکے دعوت کی۔ اس حدیث کے معنی لوگ یہ لینے لگے کہ سرکار اعظمﷺ نے اپنا عقیقہ فرمایا، اس کا جواب امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ دیتے ہیں۔ سرکار اعظمﷺ کا عقیقہ آپ کے دادا عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ نے ساتویں دن کردیا تھا۔ سرکار اعظمﷺ کا بکرے ذبح کرکے دعوت کرنا حقیقت میں اپنا میلاد منانا تھا۔

اس سے معلوم ہوا کہ میلاد منانا سنت رسولﷺ ہے۔

جہاں تک مروجہ طریقے سے میلاد منانے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا رہا، لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے۔ پہلے مسجدیں بالکل سادہ ہوتی تھیں، اب اس میں فانوس اور دیگر چراغاں کرکے اس کو مزین کرکے بنایا جاتا ہے۔ پہلے قرآن مجید سادہ طباعت میں ہوتے تھے، اب خوبصورت سے خوبصورت طباعت میں آتے ہیں وغیرہ اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں ہوتا تھا، صحابہ کرام اور تابعین اپنے گھروں پر محافلیں منعقد کرتے تھے اور صدقہ و خیرات کرتے تھے۔

👈سوال7: کیا برصغیرپاک و ہند کے محدثین نے کبھی جشن عید میلاد النبیﷺ کا انعقاد کیا؟

جواب: جی ہاں! برصغیر پاک و ہند کے جید محدثین نے بڑے اہتمام کے ساتھ میلاد کا انعقاد کیا اور اس پر فخر بھی کیا۔

گیارہویں صدی کے مجدد حضرت محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی دعا

اے اﷲ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں، میرے تمام اعمال فساد نیت کا شکار ہیں، البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل محض تیری ہی عنایت سے اس قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقع پر کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت عاجزی اور انکساری، محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاکﷺ پر درود وسلام بھیجتا ہوں۔

اے اﷲ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلاد پاک سے بڑھ کر تیری طرف سے خیروبرکت کا نزول ہوتا ہے، اس لئے ارحم الرحمین! مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ یقیناًتیری بارگاہ میں قبول ہوگا اور جو کوئی درود وسلام پڑھے اور اس کے ذریعے سے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوگی (بحوالہ: اخبار الاخیار، مصنف، شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی)

شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اپنے والد شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی کا واقعہ بیان کرتے ہیں

میرے والد ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتے تھے۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہوا، انہوں نے وہی چنے تقسیم کردیئے۔ رات کو خواب میں حضور سیدعالمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار اعظمﷺ کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپﷺ بے حد خوش اور مسرور ہیں (بحوالہ: الدرالثمین ص 8)

قارئین کرام! ہم نے آپ کے سامنے برصغیر پاک و ہند کے دو محدثین کے معرکتہ الآراء کتب سے میلاد منانے کا ثبوت پیش کیا۔یہ وہ دو ہستیاں ہیں جن کے ذریعے سے حدیث کی سند ہم برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں تک پہنچی ہے اگر (معاذ اﷲ) میلاد النبیﷺ کا انعقاد بدعت ہے تو پھر یہ دونوں محدث بدعتی ٹھہرے؟ اگر یہ دونوں محدث بدعتی ہیں تو پھر احادیث کاکیا بنے گا؟ لہذا ماننا پڑے گا کہ جشن میلاد النبیﷺ کے موقع پر محافل کا انعقاد بدعت نہیں بلکہ باعث اجروثواب، مستحب اور جائز عمل ہے۔

عیدمیلادالنبیﷺ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کی نظر میں

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ (وصال 1052ھ) برصغیر کی وہ عظیم ہستی گزری ہیں کہ جنہیں فن حدیث کے حوالے سے اہل سنت، بلکہ ہر مکتبہ فکر ایک مستند اور قابل اعتماد محدث تسلیم کرتا ہے۔ عید میلاد النبیﷺ کے حوالے سے ہم آپ کے سامنے انہیں شیخ محدث علیہ الرحمہ کی ایک مشہور عربی کتاب ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’مومن کے ماہ و سال‘‘ سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ جو ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے اس کی تصدیق دیوبند تبلیغی جماعت مکتبہ فکر کے مفتی محمد شفیع صاحب (دارالعلوم کراچی) نے کی ہے۔

نانچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی اسی کتاب میں فرماتے ہیں

شب ولادت شب قدر سے افضل ہے

(1) سرور عالمﷺ کی شب ولادت یقیناًشب قدر سے زیادہ افضل ہے کیونکہ شب ولادت آپﷺ کی پیدائش و جلوہ گری کی شب ہے اور شب قدر آپﷺ کو عطا کی ہوئی شب ہے (مومن کے ماہ و سال، صفحہ نمبر 84)

ہر نعمت و رحمت نبی کریمﷺ کے وسیلہ سے

(2) ذات رسالت مآبﷺ کو اﷲ نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنایا ہے اور آپﷺ ہی کی ذات والا صفات کے سبب سے آسمانی و زمینی تمام مخلوقات کو اﷲ نے عام نعمتیں سرفراز کی ہیں (صفحہ نمبر 84)

جہنم میں ابولہب کافر کا حال

(3) ابولہب کی باندیوں میں سے ثویبہ لونڈی نے ابولہب کو رسول اکرمﷺ کی ولادت کی خوشخبری دی جسے سن کر ابولہب نے اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی ساتھی نے اسے خواب میں دیکھ کر اس کاحال پوچھا تو جواب دیا جہنم میں پڑا ہوں البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہر پیر کی رات کو عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے اور اپنی ان دو انگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ان انگلیوں سے میں نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس لئے آزاد کیا تھا کہ اس نے رسول اکرمﷺ کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔ اس صلہ میں ان دونوں انگلیوں سے کچھ پانی پی لیتاہوں‘‘ (صفحہ 84-85)

عید میلاد النبیﷺ منانا مسلمانوں کا عمل ہے

(4) ابن جوزی نے لکھا کہ ابولہب کافر جس کی مذمت قرآن کریم میں وارد ہے جبکہ اس کو ولادت رسول اکرمﷺ کی خوشی منانے میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کرنے کا یہ بدلا ملا کہ وہ دوزخ میں بھی ایک رات کے لئے فرحت و مسرت سے ہمکنار ہوجاتا ہے تو ان مسلمانوں کے حال پر غور کیا جائے جو آپﷺ کی ولادت باسعادت پر مسرتوں کا اظہار کرتے اورآپﷺ کی محبت میں بقدر استطاعت خرچ کرتے ہیں۔ مری جان کی قسم! شب ولادت رسالت مآبﷺ میں اظہار مسرت کے سبب اﷲ تعالیٰ اپنے عام فضل وکرم سے اظہار مسرت کرنے والوں کو جنت کے باغوں میں داخل کرے گا۔ مسلمان ہمیشہ سے محفل میلاد النبیﷺ منعقد کرتے آئے ہیں۔ محفل میلاد کے ساتھ ہی دعوتیں دیتے کھانے وغیرہ پکواتے اور غریبوں کی طرح طرح کے تحفہ تحائف تقسیم کرتے۔ خوشی کا اظہار کرتے اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ نیز ولادت باسعادت پر قرآن خوانی کراتے اور اپنے مکانوں کو مزین کرتے ہیں۔ ان تمام افعال حسنہ کی برکت سے ان لوگوں پر اﷲ کی برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ (ص 85)

محفل میلاد منعقد کرنے کے خصوصی فضائل

(5) محفل میلاد النبیﷺ منعقد کرنے کے خصوصی تجربے یہ ہیں کہ میلاد کرنے والے سال بھر تک اﷲ کی حفظ وامان میں رہتے اور حاجت روائی ومقصود برآری کی خوشیوں سے جلد ترہم آغوش ہوتے ہیں (ص 85)

میلاد النبیﷺ مسلمانوں کی عید ہے

(6) اﷲ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل کرتا ہے جو میلاد النبیﷺ کی شب کو عید مناتے ہیں اور جس کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے وہ اپنی دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوجاتا ہے (ص 86)

جھنڈے و پرچم لگانے کا ثبوت

(7) حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میں نے تین پرچم اس طرح دیکھے کہ ان میں سے ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں اور تیسرا خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا (ص 75)

تاریخ ولادت کے متعلق

(8) 12 ربیع الاول تاریخ ولادت رسالت مآبﷺ مشہور ہے اور اہل مکہ کاعمل یہی ہے کہ وہ اس تاریخ کو مقام ولادت رسالت مآبﷺ کی اب تک زیارت کرتے ہیں (ص 81)

(9) علامہ طیبی رحمتہ اﷲ علیہ کا بیان ہے ’’تمام مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ رسالت مآبﷺ 12 ربیع الاول کو اس دنیا میں رونق افروز ہوئے‘‘ (ص 82)

(شیخ محدث رحمتہ اﷲ علیہ کی کتاب سے لئے گئے اقتباسات ختم ہوئے)

فوائد

شیخ محدث رحمتہ اﷲ علیہ کے ان اقتباسات کی روشنی میں درج ذیل فوائد حاصل ہوئے۔

1۔ 12 ربیع الاول ولادت مصطفیﷺ کی تاریخ پر مسلمانوں کااتفاق ہے

2۔ میلاد النبیﷺ مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے

3۔ عید میلاد النبیﷺ کی خوشی کرنا مسلمانوں کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے

4۔ خاص کر اہل مکہ کا عمل رہا ہے کہ 12 ربیع الاول کو مقام ولادت رسولﷺ کی زیارت کرتے رہے۔

5۔ محفل میلاد النبیﷺ کی برکت سے سال بھر امن وامان رہتا ہے اور مصیبتیں وتکالیف دور ہوتی ہیں۔

6۔ عید میلاد النبیﷺ میں اپنے گھروں کو سجانا اور قرآن خوانی وغیرہ جیسے نیک اعمال کرنا خوشی کی علامات ہیں

7۔ ان تمام افعال حسنہ کی برکت سے اﷲ تعالیٰ کی برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

الحمدﷲ!

غور فرمایئے! گیارہویں صدی کے مجددشیخ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ ان تمام اعمال کو ’’افعال حسنہ‘‘ یعنی نیک و مستحب اعمال فرما رہے ہیں اور مسلمانوں کا برسوں سے معمول قرار دے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی کہ ان نیک اعمال کے سبب اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔

سوال: کیا تیس، پینتیس سال پہلے ہمارے بھائی بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی کے بجائے بارہ وفات قرار نہیں دیتے تھے؟

جواب: ہم نے تو صرف چند بوڑھے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ بارہ ربیع الاول کو بارہ وفات کہتے ہیں۔ چند بوڑھوں کی بات سند نہیں ہے اور نہ ہی شریعت ہے، علماء کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔

نبی کریمﷺ کی ولادت مبارکہ کے سلسلہ میں لفظ میلاد و مولد کا اولین استعمال

1۔ دلیل: نبی کریمﷺ کی ولادت مبارکہ کے احوال کے اظہار و برکات کے سلسلہ میں لفظ میلاد کا اولین استعمال جامع ترمذی میں ہے۔ جامع ترمذی صحاح ستہ میں سے ہے۔ اس میں ایک باب بعنوان ’’ماجاء فی میلاد النبیﷺ‘‘ ہے۔ اس بات سے لفظ میلاد کے اولین استعمال کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ اس باب میں بیان ہے کہ قیس بن محزمہ صحابی رضی اﷲ عنہ نے میلاد النبیﷺ کا ذکر بیان فرمایا ’’پیدا ہوا میں اور رسول اﷲﷺ اس سال میں قصہ اصحاب فیل کا واقع ہوا‘‘ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے قباث بن اثیم صحابی رضی اﷲ عنہ سے پوچھا (تم بڑے ہو یا رسول اﷲﷺ، سو انہوں نے کہا کہ حضرت محمدﷺ مجھ سے بڑے ہیں لیکن پیدائش میں میں مقدم ہوں (جامع ترمذی شریف جلد دوم ص 637)

2۔ صاحب مشکوٰۃ نے مشکوٰۃ شریف میں باب باندھا اور اس باب کا نام ’’میلاد النبیﷺ‘‘ رکھا۔

3 سعودی عرب کا موجودہ اسلامی کلینڈر آپ ملاحظہ فرمائیں اس کلینڈر میں ربیع الاول کے مہینے کی جگہ ’’میلادی‘‘ لکھا ہوا ہے یعنی یہ میلاد کا مہینہ ہے۔

4۔ پوری دنیا کے تعلیمی نصاب دیکھ لیں، تمام نصاب میں اسلامیات کے باب میں ’’میلاد النبیﷺ‘‘ کے نام سے باب ملے گا، بارہ وفات کے نام سے نہیں ملے گا۔

اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ چند بوڑھوں کی بات مانی جائے یا اکابر محدثین کی بات مانی جائے۔

 👈سوال8: کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ کی عقلوں پر ماتم کرنا چاہئے کہ اپنے نبیﷺ کے وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو؟

جواب: یہ بات پچھلے سوال کے جواب میں بھی عرض کی کہ بارہ ربیع الاول حضورﷺ کی تاریخ وصال نہیں ہے۔

اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ہی آپﷺ کا وصال شریف ہوا تھا تو وفات کا غم وفات سے تین دن کے بعد منانا قطعا جائز نہیں۔ اسلام میں سوگ صرف تین دن ہے چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو۔

حدیث شریف: ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ منائیں مگر شوہر پرچار ماہ دس دن تک بیوی غم منائے گی (بحوالہ: بخاری جلد اول ص 804، مسلم جلد اول ص 486)

فائدہ: ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد وفات کا سوگ منانا ناجائز ہے۔ نبی کے وصال کا غم منانے کا حکم ہوتا تو تاجدار کائناتﷺ ہر جمعہ (یوم ولادت حضرت آدم علیہ السلام) منانے کے بجائے یوم سوگ منانے کا حکم دیتے چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو۔

حدیث شریف: حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالمﷺ نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلا کو پیدا کیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا (بحوالہ: ابو داؤد شریف، ابن ماجہ، نسائی شریف)

الحمدﷲ! قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام، شہداء اور صالحین اپنی قبور میں جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں۔ جب حضورﷺ حیات ہیں تو پھر سوگ اور غم کیسا؟ خود حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو۔

حدیث شریف: حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا:

حیاتی خیرلکم و مماتی خیر لکم

میری ظاہری حیات اور وصال دونوں تمہارے لئے باعث خیر ہے (بحوالہ کتاب الشفاء از: امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ)

الزام لگانے والو! ذرا سوچو اور یاد کرو بخاری شریف کی پہلی حدیث ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ لہذا ہم جشن ولادت کی خوشی کی نیت سے میلاد مناتے ہیں نہ کہ وصال کی خوشی پر جشن مناتے ہیں۔

👈سوال9: کیا تاجدار کائناتﷺ کے وصال کا دن تمام اہلسنت کے نزدیک متفقہ طور پر بارہ ربیع الاول نہیں ہے؟

جواب: یوں لگتا ہے کہ آپ نے اہلسنت کی کوئی کتاب نہیں پڑھی، اس لئے ایسا سوال کیا ہے۔ علمائے اہلسنت کا تاریخ وصال میں اختلاف ہے کسی کے نزدیک یکم ربیع الاول، دو ربیع الاول، پانچ ربیع الاول ہے۔

دلیل: علامہ ابوالقاسم السھیلی علیہ الرحمہ نے الروض الانف یہی استدلال فرمایا کہ نو ذوالحجہ جو جمعتہ المبارک کا دن تھا (جس میں آپﷺ نے حجتہ الوداع کا خطبہ دیا تھا) اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس حساب سے ذوالحجہ، صفر المظفر کے ایام کی تعداد انتیس اور تیس تصور کرکے ممکنہ آٹھ صورتوں میں حساب کیا تاہم کسی صورت میں بھی ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو پیر کا دن نہیں آتا۔ (بحوالہ: البدایہ والنہایہ جلد پنجم ص 296)

👈سوال10: مروجہ میلاد النبیﷺ ایک ظالم، عیاش بادشاہ شاہِ اربل کی ایجاد ہے؟

جواب: شاہ اربل مظفر الدین بن زین الدین عیاش نہیں عادل تھا

عید میلاد النبیﷺ کا انکار کرنے والے ایک من گھڑت بات یہ بھی پیش کرتے ہیں۔ میلاد کی ابتداء عیاش اور ظالم بادشاہ مظفر الدین نے کی حالانکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ مظفر الدین شاہ اربل عیاش نہ تھا بلکہ عادل تھا چنانچہ ابن کثیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔

شاہ اربل مظفر الدین بن زین الدین ربیع الاول میں میلاد شریف مناتا اور عظیم الشان جشن برپا کرتا تھا، وہ ایک نڈر، بہادر، جانباز، عاقل، عالم اور عادل بادشاہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور انہیں بلند درجہ عطا فرمائے۔ شیخ ابوالخطاب ابن دحیہ نے ان کے لئے میلاد شریف کی ایک کتاب تصنیف کی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھا تو انہوں نے شیخ کو ایک ہزار دینار پیش کیا۔ انہوں نے ایک طویل عرصے تک حکمرانی کی اور سات سو تیس ہجری میں جب وہ عکا شہر میں فرنگیوں کے گرد حصار ڈالے ہوئے تھے۔ ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ اچھی سیرت وخصلت کے حامل تھے (بحوالہ: البدایہ والنہایہ جلد سوم ص 136)

سبط ابن جوزی نے مرأۃ الزمان میں ذکر کیا ہے کہ شاہِ اربل کے یہاں میلاد شریف میں بڑے بڑے علماء و صوفیاء شرکت کرتے تھے۔ (بحوالہ: الحاوی للفتاویٰ جلد اول ص 190)

میلاد کا انکار کرنے والے اپنے علم کو ذرا وسیع کریں تاکہ انہیں ذلیل نہ ہونا پڑے۔

👈سوال11: آپ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ محافل میلاد میں حضورﷺ کی آمد ہوتی ہے، اس لئے کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں؟

جواب: ہم حضورﷺ کی آمد کے لئے نہیں بلکہ ذکر رسول ﷺ کے ادب کے لئے کھڑے ہوکر صلوٰۃ وسلام کھڑے ہوتے ہیں

القرآن: والصفت صفاہ (سورۂ الصفت، آیت 1 پارہ 23)

ترجمہ: قسم صف بستہ جماعتوں کی کہ صف باندھیں۔

تفسیر: اس آیت کے تحت مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو سرکار اعظمﷺ کی بارگاہ میں کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کرتے ہیں۔

حدیث شریف: جب آپﷺ کا وصال ہوا تو آپﷺ کے جسم اطہر کو کفنا کر تخت پر لٹادیا گیا تو اس موقع پر حضرت جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام نے فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ (کھڑے ہوکر) صلوٰۃ وسلام پیش کیا (بحوالہ، بیہقی، حاکم، طبرانی شریف)

دلیل: ہر مسلمان مرد، عورت اور بچیوں نے باری باری کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کیا (بحوالہ: مدارج النبوت جلد دوم ص 440)

دلیل: حضرت امام تقی الدین سبکی علیہ الرحمہ کی محفل میں کسی نے یہ شعر پڑھا ’’بے شک عزت و شرف والے لوگ سرکار اعظمﷺ کا ذکر سن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت امام سبکی علیہ الرحمہ اور تمام علماء و مشائخ کھڑے ہوگئے۔ اس وقت بہت سرور اور سکون حاصل ہوا (بحوالہ: سیرت حلبیہ ، جلد اول ص 80)

دلیل: برصغیر کے معروف محدث اور گیارہویں صدی کے مجدد شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں محفل میلاد میں کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں۔ میرا یہ عمل شاندار ہے (بحوالہ: اخبار الاخیار ص 624)

معلوم ہوا کہ کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پڑھنا حضورﷺ کی ذکر کی تعظیم و ادب ہے۔ اہل حق یعنی اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام آج بھی دنیاوی حیات کی طرح زندہ ہیں، ان کی دنیاوی اور موجودہ زندگی میں یہی فرق ہے کہ ذمہ داری کا دور ختم ہوگیا تو وہ اپنے پروردگار جل جلالہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور دنیا والوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہی اجماعی عقیدہ رہا ہے۔ جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

الحدیث: حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں، میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور اکرمﷺ کو خواب میں دیکھا۔آپﷺ کی داڑھی مبارک اور سرانور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں (بحوالہ: ترمذی ابواب المناقب، حدیث 1706، ص 731، مطبوعہ فرید بک لاہور)

فائدہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا بلاشبہ اس نے مجھے ہی دیکھا، شیطان میری صورت نہیں بنا سکتا لہذا حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا نے یقیناًحضورﷺ کو ہی دیکھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضورﷺ بعد از وصال بھی اپنے غلاموں پر ہونے والے ظلم سے آگاہ ہیں۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حضورﷺ بعد از وصال بھی جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں اور جب چاہیں، جہاں چاہیں اپنے رب جل جلالہ کی عطا کی ہوئی طاقت سے تشریف لے جاسکتے ہیں ورنہ مقتل حسین (کربلا) میں کیسے تشریف لاتے۔

Monday, 13 June 2016

ISALE SAWAB JAYEZ WA MUSTHEB AMAL HAI

Paani Se Isaal e Sawab Hadees 06:
Umme Saad k Liye KUN’WA (WALL)
 “Hazrat Saad Bin Ubada رَضِیَ اللهُ عَنْهُ arz karte hai YA RASOOL ALLAH صلى الله عليه و آله وسلم meri Maa Wisal Kar gayi, Mai unki taraf se sadka karna chahta hu konsa sadka Afzal rahega, Sarkar صلى الله عليه و آله وسلم ne farmaya PAANI, Chunance unhone ek KUN’WA (Wall) khudwaya aur kaha ‘ هَذِهِ لأُمِّ سَعْدٍ‏ ’ yaani Ye Umme Saad K liye”
 References :
 (Sunan Abu Dawood Vol : 02, Kitab 09 : Al Zakat, Baab 561 : Paani Pahuchane K Fazail, Pg : 180, Hadees : 1681)
 (Mishkat Al Masabih Vol : 01, Pg : 362, Hadees : 1912)
 (Imam Munzir ne At Targhib Wa Tarhib Vol : 02, Pg : 41, Hadees : 1424)
 yehi rivayat Imam Nasai ne kuch yu likhi hai
Hadees 06 (A):
 “Hazrat Sa’d Bin Ubaada رَضِیَ اللهُ عَنْهُ Riwayat Karte Hain Ki Un Kee Waalida Fawt Ho Gayi. Unhone Arz Kiya : Ya Rasool Allah صلى الله عليه و آله وسلم !
 Meri Waalida Fawt Ho Gayi Hain, Kya Mein Us Kee Taraf Se Sadqa Kar Sakta Hoo’n ? Aap صلى الله عليه و آله وسلم Ne Farmaya : Ha’n Unhone Arz Kiya : To Koun Sa Sadqa Behtar Rahega? Aap صلى الله عليه و آله وسلم Ne Farmaya : Paani Pilaana.
 (To Unhone Aik Kuwa’n Kharid Kar Musalmanon Ke Liye Waqf Kar Diya) Phir Yah Kuwa’n Madinah Munawwarah Me Sa’d Ya Aale Sa’d Ke Paani Kee Sabeel (Ke Naam Se Mash’hoor Tha).”
 References :
 (Imam Nasai , Sunan Nasai Vol : 06, Pg : 255, Kitab No 30 - Kitab Al Wasaya, Baab No 9 :Zikreel Ektelafi Ala Sufyan, Hadees : 2666)
 (Imam Nasai, Sunan Al Kubra Vol : 04, pg : 112, Hadees : 6491)
 (Musnad E Ahmad Ibn Hambal Vol : 05, Pg : 284, Hadees : 22512)
 (Imam Tabrani Majmaul Kabir Vol : 06, Pg : 20, 5379)
 Pata chala k Sirf wo amal jaise Haj roza sadkat se hi nahi balki dusre amal jaise paani k jariye bhi Isaal kiya jaa sakta hai aur aakhir us wakt Paani ka intekhab kyu dusre Sahaba e Kiram Radi Allaho Anho ko alag alag amal bataya Hazrat Saad bin Ubada Radiallahu anho ko ye kyu ? Unhe bhi koi amal Haj roza sadkaat bataya jaa sakta tha na ?
 Maazra ye tha us wakt Madina e Munawarra me Paani ki killat thi lihaja hukm huwa Paani ka kuwa khudwao aur phir logo ko paani mila ab jab jab log us paani k kuwe se sairaab hote hai sabka Sawab Hazrat Saad ibn Ubada Radi Allaho anho ki walida mazida ko pahuchta hai.
Is hadees e paak se bahot se masle hal huwe jinme chand hum yaha bhi likh rhe hai jaise Jarurat k ain ki cheez Isaal kare chunki us wakt paani ki killat thi to paani ka hukm huwa aur hum aaj dekhe to aaj bhi bahot si jagah paani ki killat hai aaj Ummat e Muslima ko acche Hospitals, education, Deeni Madaris ki jarurat hai to in sabko banake apne buzurgo k naam se mansoob karna phir jab tak usse Musalmaan fayda uthayga un marhoomeen aur buzurgo ko bhi iska nafa hoga.
Dusri ek baat pata chali baaj jahil khawarij wahabi ye bhi kahte hai k kisi khane peene ki cheez ko kisi k naam se mansoob kar dena ye shirk hai.
Is hadees e paak se ye bhi subaha khatm huwa k kisi k naam se mansoob kardena katayi nazaiz o shirk biddat nahi balki KHUD NABI E KARIM صلى الله عليه و آله وسلم ne KUWE ko Hazrat Saad Ibn Ubada radi allaho ki walida k naam se mansoob kiya hai agar ye nazaiz o shirk biddat hota to hargiz ye amal sabit na hota. Aur Is Hadees ki shara me Imam Aini Likhte hai Hazrat Abu Hurraira Radi Allaho anho farmate hai Hum Sahaba e Kiram ki aadat thi k hum jaate aur ussi kuwe ka paani pite taaki saad ibn Ubada ki walida mazida ko iska mazeed nafa pahuche”
 Isi trah Musalmaan jaha jagah hoti hai permanent Sabil e Imam Hussain Radi Allaho Anho k naam se banayi jaati jis se log paani pite hai aur wahi jaha jagah ki killat hoti hai log Muharram k mahine me Sabil E Hussain Radi Allahu Anho kayam karte hai lihaja ye amal kahi se nazaiz nhi lkin bugz e ahle bait ne kya se kya bana diya in khabiso ko.

Khana Saamne Rakh K Kalam E Ilahi Padhne Ka Saboot
Hadees 07 :
 Hazrat Anas رَضِیَ اللهُ عَنْهُ farmate hai jab Nabi e Paak صلى الله عليه و آله وسلم ne Hazrat Zainab Radi Allaho Anha Se Nikah Kiya To Meri Walda Hazrat Umme Sulaim Radi Allaho Anha Ne Hais (Sattu,Ghee, Or Khazoor Se Bana Huwa Khana) Bana Kar Ek Tabaq me Rakha Or Mujhe Kaha Ise Nabi e Karim صلى الله عليه و آله وسلم Ki Khidmat e Aqdas Me Le Jao Main Khidmat e Aqdas صلى الله عليه و آله وسلم Me Hazir Huwa To Nabi E Karim صلى الله عليه و آله وسلم Ne Farmaya Jao Or Musalmano Me Se Tumhe Jo Mile Usse Bula Lao Mujhe Jo Mila Bula Laaya or Nabi e Akram صلى الله عليه و آله وسلم Ne Dua Padha or Jo Kuch Rab Ko Manzoor Tha wo Aap ne Dua Me Padha Phir Log Ghar Me Dakhil Hote Khana Khate Aur Nikal Jaate Sab Ne Sair Hokar Khaya Or Chale Gaye Kuch Log Baithe Rahe Unho Ne Lambi Baatein Shuru Kardi Nabi E Karimصلى الله عليه و آله وسلم Unhe Kuch Kehne Se Haya Karte The Nabi E Paak صلى الله عليه و آله وسلم Ghar Se Bahar Tashrif Le Gaye Magar Woh Log Wahin Bethe Rahe.
 Us Wakt Allah Ta’ala Ne ye Aayat Nazil Farmaya.
 Aye Imaan Waalo Nabi e Pak صلى الله عليه و آله وسلم K Ghar Me Begair Izazat Dakhil Na Huwa Karo, Na Khane K Wakt Taktey Raha Karo Haa Agar Tumhe Khane Pe Bulaya Jao To Jarur Aao Lekin Khana Khane K Baad Chale Jaya Karo Baatein Karne Me Na Lage Raho Tumhari Ye Harkatein Nabi e Karim صلى الله عليه و آله وسلم Ko Taklif Deti Hai Magar wo Sharm Ki Wajah Se Tumhe Kuch Nahi Kehte Or Allah Taala Haq Baat Kehne Me Sharm Nahi Karta (Surah Ahzaab Ayat 53)
 Reference :
 (Sahi Muslim Vol : 02 , Kitab No 16 Kitabun Nikah, Baab : Ummul Momineen Zainab Bint Jahsh k Nikah Ka Bayan aur Hizab k Mutaalik Nuzool e Wahi Ka Bayan, Hadees : 1428)
 (Jamai Tirmizi Kitab No 47 Kitabut Tafseer, Hadees : 3524)
Is Hadees e paak se wajeh huwa k Nabi e Karim صلى الله عليه و آله وسلم
 Khane pe Dua padhte the aur Khane pe Quran padhna ye hargiz haraam nahi hai agr wo mukhalif maante hai to unko yakini taur pe apna saboot pesh karna chahye ALLAH Taala Quran e Karim me farmata hai
 قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ هَٰذَ “Tum Farmaao Laao Apne Wo Gawaah Jo Gawahi De Ki ALLAH ne Usse Haraam Kiya” (Surah Anam Ayat 150)

Is aayat e Mubaraki se wajeh huwa k dalail mukhalifeen ko dena hai k Khane ki Cheez pe Quran e Karim padhna haraam hai to uski daleel kaha hai aisa nahi hai k jo dil chahe jis cheez ko chahe aap haraam shirk bolde.
 Aur Ahem baat Khane Se Pehle Shuru me hi Musalmaan BISMILLAH padte hai wo kya hai dar asal Quran ki hi aayat to hai ab Musalmaan padte hai jo kehte hai Khane Pe Quran naa padho wo kon hai ab hum nahi kahte aap samajh gaye honge.

To pata chala Khane pe QURAN padhna bhi jaiz hai aur Saad ibn Ubada Radi Allahu Anho ki hadees e paak se wajeh huwa k kisi Peene ki cheez ko Kisi k naam se mansoob karna bhi jaiz to ab yehi sunni karte hai to ye amal kaise nazaiz huwa ?
 Mitha Halwa Pakana Kyu ? Halwa Banana Kaisa ?
 Halwa Banana Hadees E Paak
 Kaum e Wahabiya ko Halwe se badi nafrat hai ab kyu hai ye to wohi jaane lkin Hum Ahle Sunnat Ko Halwa kyu Pasand Hai aaye Hadees e paak se dikhate hai aur jinhe nafrat hai unhe bhi padhna chahye

Hadees 08 :
 “Umool Momineen Hazrat Ayesha Siddiqua Tahira Radi Allaho Anha se rivayat hai k Nabi E Karim ه و آله وسلم صلى الله علي Halwa (Sheerni) Aur Shahed (Honey) Pasand Farmate The”
 Refernces :
 (Sahi Bukhari, Vol : 02 ,Kitab No 76 Al Tibb,Hadees :5682)
 (Sahi Bukhari, Vol : 02 ,Kitab No 74 AL Taam’at (Food),Hadees : 5431/5599)
 (Sunan Ibn Majah, Kitab No 29 AL Taam’at (Food),Hadees : 3448)
 (Imam Tirmizi ne Shama’il E Muhammadiya Kitab No 26, Hadees : 163)
 pata chala Halwa to Khud Huzoor Nabi E Karim ه و آله وسلم صلى الله علي ko pasand tha isliye Ahle Sunnat khoob khate hai ab khud faisla karlo jo cheez Aaka ه و آله وسلم صلى الله علي ko pasand hai tum uska mazaak udhao to tum kaun ho ? ?
 Aur Ab Tumhe Kawwe Gadho pe pyaar aaya hai to hum kya kare ?? aur ek ahem baat halwa khana haraam shirk biddat bolte hai jarur par khane pehle aate hai ye isliye hamara Imam Aala Hazrat Rahimullah bol chuke
Tera khai Tere Gulamo Se Uljhe
 Hai Munkeer Ajab khane Gurrane Waale
khate bhi Huzoor ه و آله وسلم صلى الله علي ka sadka hai aur ulajhte bhi unke gulamo se hi hai.
 Quran Padhne K Isaal e Sawab Karna Kaisa ?
 Is unwaan pe bhi kaum e wahabiya bahot shor o gul macha ti hai k Quran padhne Isaal e Sawab nhi kiya jaa sakta hai halanki ye bas unka apna faisla hai shariat ka hukm nahi hai apni soch se aqaid nazariat kayam kar bethe hai agar wakayi wo haq pe sacche hai apne kaul me to ek SAHI mustanad Dalil Hadees e paak se wajeh karde k kaha Quran padhke Isaal e Sawab karna mana hai ? ye hum unpe chodte hai
Hadees 09:
 “Jo Kabristan me 11 martaba Surah Ekhlaas padhke tamam Ahle Kaboor ko ISAL E SAWAB karde to sabke barabar Isal e sawab karne ka azr karne waale ko Milega”
 (Jami' Jawami' Al-Suyuti, Vol 08 Pg : 280, Hadees : 23102)
Hazrat Ali Radi Allaho Farmate Hai Ki Huzoor Nabi E Karim ه و آله وسلم صلى الله علي ne Farmaya Jo Shaksh Kabristan K Pass Se Guzre Aur Surah Ekhlaas 11 Martaba Padhe Phir Uska Sawab Murdo Ko Bakhs De To Usko Murdo Ki Tadad K Barabar Azro Sawab Milega”
 (Durre Mukhtar)
Imam Ahmad Ibn Hambal Rahimullah Ka Farmaan
 “Jab Tum Kabristan Jaao To Surah Fatiha Aur Muwazatain Aur Surah Ekhlaas Padho Aur Inka Sawab Ahle Kaboor Aur Pahuchao Bila Subah Wo Unhe Pahuchta hai”
 (Imam Suyuti Ash Sharahusudoor Pg : 289)

“Jo shaks Juma k Din Apne Walidain ya inme se kisi ek ki kabr ki ziyarat kare aur uske pass SURAH YASEEN padhe baksh diya jaaye”
 (Imam Abi Adi ne AL Kamil Vol : 06, Pg : 260)

To pata chala Quran padhke bhi Isaal karna ye koi aaj ka amal nhi hai balki jamhoor ulma mashaikh ka amal raha hai ispe aur Shariat ne bhi isko mana nahi farmaya hai to hum in mashaikh fukaha ko maane ? yaa aaj k tum angrezi paidawar ko ?

Agr tumhe wakayi takleef hai to option khula hai tum apne murdo k liye isaal naa karo hum Musalmaan to karnge. Now Choice is Yours
 Aur is masle me mazeed detail k liye Imam Suyuti ki Ash Sharausudoor k aakhri hisse ko padhle kaafi doubts clear hojynge. In Sha Allah Taala.

Pata chala In Dalail Se k Isaal e Sawab jaiz amal Mustahab recommended amal hai Alhamdullilah

QURAN AUR AAJ KA MUSALMAN WAHABIYON KI POST KA JAWAAB

QURAN AUR AAJ KA MUSALMAN WAHABIYON KI POST KA JAWAAB
 
 (1) MUSKIL-KUSHA (Tamaam Mushkilen halkarne wala)
 “Agar Tumhe Allah kisi mushkil me daal de to iske siwa isko koi door karne wala nahi aur agar wo tumhe kisi khaer(bhalai) se nawazna chahe to wo har chiz par qadir hai”
 (Surah Anam Ayat : 17 )
(2) GAUS-E-AAZAM DASTAGEER (SabseBada Faryaad Sunne Wala )
 “Kaun hai jo beqarar ki dua sunta hai jab ke wo usse pukare aur kaun uski taklif ko doorkarta hai, aur kaun hai jo tumhe zameen ka khalifa banata hai ! Kya Allah ke sath aur koi Mabood hai ?”
 (Surah Namal, Ayat : 62)
(3) DAATA (Sab Kuch DeneWala) Besak Allah bada denewala hai.
 “Jise chhata hai betiyan deta hai, jise chhata hai bete deta hai, jise chhata hai bete aur betiyan mila jhula kar deta hai, aur jise chhata hai banjh rakh deta hai, wo to janne wala Qudrat wala hai”
 (Surah Ash Shura,49,50)
4) Garib Nawaz (Garibo Ko Nawazne waala)
 “Aye Logo Tum Sab Allah K Dar K Fakir Ho Allah To Gani Wa Hamid Hai”
 (Surah Fateer Ayat : 15)
Isko bhejne k baad wahabi ka Ispe tabseera
Dekhiye Quran ka Eilan Kya hai aur aaj ka Kalma Padhne waala Musalman Kya kar raha hai kya Akeeda Rakh Raha hai ye Tamam Sifaat Allah ki Hai aur Aaj k kalma go mushriko ne bando ko de rakhi hai ye Shirk hai. ALLAH KI SIFAAT ME AAPNE BANDO KO SHARIK TO NAHI KAR LIYA ALLAH KI SIFAT BANDO ME TO NAHI MAAN LI ? Kaheen aap to isme mullawis nahi ?? Allah o Akbar
In Aayato ka sahara leke wahabi batana chahte hai k unhone puri dunya k Musalmano ko Quran ki aayato se kaafir Saabit kar diya hai ab saare Sahi akeeda sab mushrik hai aur wahabi mutthi bhar jamaat tauheedi hai.
Message ka Conclusion jo hai wo ye hai aur iska jawab hume dena hai :
 1) Mayaar e Uloohiyat jo banaya gaya wo MADADGAAR Hona yaani Aapne ALLAH k bando ko madadgaar maan liye SHIRK hogya.
2) ALLAH ki Sifaaat Bando me maan li gayi Lihaja SHIRK FI SIFAAT Hogya hai.
 Al Jawab : ye aitraaz jitna chota hai dikhne me bas 04 line par hai jawab uthna hi bada hai upar bayan karta wahabiyo k dalil ko dekhe to 02 chiz pata chalti hai jo ye k In logo ne Mayar e Uloohiyat Madadgaar Hone ko banaya hai Dusra Sifaat k naam pe logo ko gumraah kiya halanki inka ye dono nazariya Quran Aur Islam Ka nazariya nahi hai ye inki SELF CREATED TAUHEED hai jo inka So called Wahabi Aaka Muhammad bin Abdul Wahab Nazdi ne likha aur uske baad puri jurrriat apne abba jaan k nakshe kadam pe hai uski hi bayan karda tauheed ko mission ko leke aage bad rhi hai aur ye koi nayi baat nhi hai inke abbao se inhone ye sikha hai wo hadees mai aage aakhri me likhunga kaha se ye inhone sikha hai k QURAN padhke bhi logo ko kaise gumraah kiya jaaye.
 Chunki ye topic bhi TAWHEED AUR SHIRK se talluk rakhta hai isliye sabse ahem baat ye hai k hum jaane k Tawheed aur Shirk hai kya warna ye baat samajh nhi aaygi lihaja maine is topic pe taaki aasani se samajh aaye 04 part me bandha hai aur ek aakhir part ek hadees e paak hai jo inke pure sazra e nasab ka bhandafod degi wo aakhri hisse me aaygi.
 1) Allah ki Jaat aur sifaat k baare me Akeeda:
 2) ALLAH ki ata karda Sifat uske bando me maan na QURANI hukm hai.
 3) Madadgaar hona Quran se.
 4) Wo hadees e paak aakhir me kis tarah Sahaba e Kiram k saamne bhi QURAN padhte the.
 5) Wahabiyo Ka Kabool Naama Us Cheez ko Bhi Humne Shirk Likha Hai jo Shirk Nahi Thi.

Part 01 - ALLAH KI JAAT AUR USKI SIFAAT K BAARE ME AKEEDA :

1) Allah Taa’la Ek Hai Uska koi Sharik Nahi naa Jaat me Na Sifaat Me.
 2) Allah Taa’la Wajibul wajood Hai yaani jiska Har haal me Mauzood Rehna Jaruri Hai, koi Jamana Aisa nahi hai jo uski Jaat Mauzood Na Ho.
 3)Allah Taa’la ‘kadim Aur Azli ’ hai yaani wo Hamesha se Hai aur ‘Abdi’ bhi hai hamesha Rahega usse kabhi maut naa aaygi.
 4)Allah Taa’la Kisi Ka Mohtaaz Nahi Saari Kaynaat ALLAH Taa’la Ki Mohtaaz Hai.
 5) Allah Taa’la Ka Naa koi Beta hai Na wo kisi baap na koi uski biwi wo in tamam chizo se paak hai jo ye akeeda rakhe wo kaafir hai aur jo isko Mumkin bhi maane wo Gumraah Badeen hai.
 6) Allah Taala makan, jahet, shakl o surat, etc makhlook ki tamam sifat aur kaifiyat se paak hai.
 7) Jo Aalam Me se Kisi Cheez Ko Khud Se Mauzood Maane yaa uske haadis hone me shak kare woh kaafir hai.
 8)ALLAH TAALA K liye MUMKIN AUR MAAHAL KA AKEEDA.
a)MUMKIN Hone Ka Bayan : Allah Taala har mumkeen par kadir hai koi Mumkin Uski Kudrat se Bahar Nahi hai.
 Allah Taala K liye MUMKIN maan Na ye bhi jaruri hai uska bhi kuch
 Example : Allah Taala Mumkin par qadir hai uska bhi thoda khulasa.
ALLAH Chahe to Jamin o Aasman ko SONA Chandi ka bana de ye mumkin hai ab banana ya naa banana ye ALLAH ki shan hai.
ALLAH k liye Mumkin hai wo chahe to jamin se barish nikal de wo chahe insaan ko bin baap k maa k apni qudrat se paida kare wo chache to Insaan ko patthar se paida karde ye sab Mumkin hai.
b)MAHAAL HONE KA BAYAN :
 Allaha Taala K Liye baaj Chizo Ka Maahal (Impossible) Maan Na ye bhi Jaruri hai aur aqaid me hai.
 Example : Allah Taala Dusra Khuda Nahi Bana Sakta, Allah Ka Fana Hona Maahal Hai, Uska Jhoot Bolna Mahaal Hai Chunki Agr Dusra Khuda Maana Jayga to uske Ek Hone ka inkaar hoga, Usko Fana Maana Jayga to Uske Mauzood Hone Ka Inkaar hoga, Usko Jhoota maana Jayga to ALLAH ki Shan nahi k wo jhoot kahe. Is trah uska Beta beti Biwi maan na ye sab mahaal hai. ALLAH k liye Mahaal hai k wo Insaani Shakl me aaye ya Autaar le.
 Ye Chand Baatein Maine ALLAH ki jaat k muttalik maine aasan lafzo me maine bayan kardi taaki padhne waalo ko example se aasani se samajh aajaye Jaat k muttalik aur bhi bahot se aqaid hai har ek yaha likhunga to puri book ban jaygi isliye jo ahem points the wo bayan kar diye.
Ab aate HAI ALLAH TAALA KI SIFAAT K MUTALLIK AKEEDE K BAARE ME aur ye bahot ahem unwaan hai chunki ye topic bhi Sifaat se related hi hai aur ye samajh liya to kabhi dushwari naa hogi.
 1) JIs Trah ALLAH ki Jaat ka Koi Sharik Nahi Hai Us Trah Uski Sifaat ka bhi koi Sharik Nahi hai.
 2) ALLAH Taala Ki Sifaat bhi Hamesha Se Hai aur Hamesha Rahegi.
 Example : Allah Ka Rehman O Rahim hona ye ALLAH Taala Ki Sifaat hai ye sifaat us wakt bhi mauzood thi jab kuch naa tha siwaye Jaat E baari Taala k Aur Us wakt bhi hogi jab Kuch naa hoga.
 3)Jo Allah Taala Ki Sifaat Ko Makhlook Kahe Yaa Haadis Bataye Woh Gumraah Aur Bad’deen Hai.
 4)Allah Taala ki Sifaat Na Ain Hai Naa Gair e Ain yaani ALLAH Taala Ki Sifaat Uski Jaat Nahi Aur Naahi Wo Sifaat Uski Jaat Se Alag Hai Chunki Wo Sifaat Aisi Hai Jo ALLAH Taala Ki Jaat k liye Jaruri hai.
 5)Allah Taala Ki Sifaat Kayi Hai aur Alag hai Har Sifaat Ka Matlab Bhi Alag Alag Hai.
 Ye Mukhtasar sa tarruf ALLAH Ki Jaat Aur Sifaat k mutallik bayan kiya gaya jo in kitabo se extract kiya hai.
 (Shara e Aqaid E Nasfi)
 (Shara E Al Fiqh E Akbar)
 (Bahar e Shariat Vol : 01, Baab : Aqaid Ka bayan, Pg :6)
 Ab Yaha Ek Subahat Wahabi Awaam ko Gumraah karne k liye Pesh karte Hai wo ye hai.
Objection Raised By Wahabis or Subahat :
 Tum Ahle Sunnat Khud Bayan karte ho ALLAH Taala ki sifaat me bhi koi sharik nahi hai aur khud hi Ambiya Alaihi Salam aur jinhe tum Aulia kehte ho unme Sifaat maante ho lihaja SHIRK FI SIFAAT to paaya gaya.
Al Jawab :
 Important Point To Note Yaha Dhyan se padhe
 1) Allah Taala Ki Tamam Sifaat Wo Allah Taala Ki Khud Ki Hai uski Jaati hai usne wo Sifaat kahi se li nahi hai aur naahi kisi ne ALLAH TAALA ko wo sifaat ata ki hai.
 2) Magar Allah Taala Ne Apni Sifaat Apne Bando ko Bhi Ata ki Hai Jo Khud Qurani Faisla Hai jo aage hum Qurani Aayat se saabit karnge k ALLAH ki shaan jo ALLAH ki hai wo bando ko bhi ata ki hai lihaja ye kisi bhi aitbaar se shirk nahi.
 3) Shirk to tab aayga Jab ye Akeeda rakhe K BANDO ki bhi jaati hai Aur ALLAH ki bhi Jaati hai Yaa ye Aqeeda Rakhe K ALLAH ki bhi Sifaat Atayi Hai Aur Bando ki Bhi Ataayi Hai.
 4) Hum Ahle Sunnat Ka Aqeeda Ka Wo ye Hai K ALLAH Ki SIFAAT BHI USKI JAATI HAI AUR ALLAH TAALA Apni Baaj Sifaat apne Bando ko bhi Ata karta hai.

WAHABI KA KAYAM KARDA ME’AAR E ULOOHIYAT :
 Inke bayan karda bayanat se kitabo se me’aar e uloohiyat kya pata chala Madadgaar hona, Hajatrawa hona, Allah ki sifaat bando me maan na magar ye inki soch hai Islami Kanoon nahi jo aage hum Ayat e Qurani se raddh kar denge In Sha ALLAH Taala.

SAHI ME’AAR E ULOOHIYAT Kya hai ?
 Jo Sirf Aur Sirf ALLAH Tabarakwatala K Liye Khaas hai ye wo cheez hai
 Jo ALLAH Taala k Siwa kisi me bhi maana jayga to shirk Hoga banda Mushrik hoga.
 1) MUSHTAHIK E IBADAT HONA : Ye Sirf Aur Sirf ALLAH k liye hai Bandgi Me ALLAH ka koi sharik nah ibadat sirf aur sirf ALLAH Taala K Liye Hai.
 2) WAJIBOOL WAJOOD HONA : Hamesha se hai aur hamesha Rahega baaki saari kaynaat me har makhlook hamesha se nahi hai aur ek wakt aayga Jab ALLAH Taala Sabko Fana Kar dega yaha tk k Maut k Farishte ko bhi Baaki rehne waali jaat ALLAH ki hai.
Pata Chala Ma’aar e Uloohiyat 02 Chiz Wajibul Wajood Hona Aur Mustahik Ibadat Hona.
 i) Kisi Ne ALLAH K Ilawa kisi ko Wajibool wajood maana MUSHRIK Hojaya
 ii) Kisi Ne ALLAH K elawa kisi ko Ibadat k layak maana MUSHRIK
 hojayga.
 iii) Kisi Ne Dono Maana Tab Bhi Mushrik Hoga ya dono me se ek maane aur ek naa maane tab bhi mushrik hoga.
Note : Jo Uluoohiyat Hai Wo ALLAH k Siwa Kisi ko nhi di jaygi chahe Ek Minute k liye bhi bhi ALLAH k elawa kisi ko nahi naa mazazi naa atayi chunki jo shirk hai wo hamesha Shirk hoga aisa nhi hai k ek wakt to shirk ho phir Tauheed hojaye. Jo Tauheed hai wo hamesha Tauheed Hai aur Jo Shirk hai wo hamesha Shirk hai.
 Ye Tamam Bunyaadi Istelahi baatein ALLAH Ki Jaat Sifat aur Tauheed k Muttalik thi ab aaye Hum dalail k taraf.
Hizbullah Aur Hizushaitaan Ka Fark
 Jamaat Do Hai Ek Hai ALLAH waalo ki Jamaat Jo Kamyaab Hai Jannat me Jaygi Jisko Hizbullah Kaha J aata Hai Jiska Zikr Quran me Hai
I) Hizbullah Kon Hai Yaani ALLAH ki Jamaat ?
Ayat 01 : أُولٰئِكَ حِزبُ اللَّهِ ۚ أَلا إِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ المُفلِحونَ
 “Ye Allah Ki Jamaat Hai Sunta Hai Allah Hi Ki Jamaat Kamyaam Hai”
 (Surah No 58 Surah Mujadilah Ayat 22)
Ayat 02 : إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ
 “Humko Sidha Raasta Chala - 5”
Ayat 03 : اهدِنَا الصِّراطَ المُستَقيمَ
 “Raasta Unka Jinpe Tune Ehsaan Kiya - 6”
 (Surah Fatiha Ayat 5 & 6)
Ayat 04 :
 أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّينَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّالِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولٰئِكَ رَفيقًا
 “Jinpar ALLAH ne Fazl Kiya Yaani Nabi Aur Siddikeen Aur Shaheed Aur Nek Log Ye Kya Hi Acche Saathi Hain”
 (Surah Nisa Ayat 69)
 II) Hizbushaitan Kon Hai Ye Shaitan Ka Group Hai
Ayat 05 : إِنَّ الشَّيطانَ لَكُم عَدُوٌّ فَاتَّخِذوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّما يَدعو حِزبَهُ لِيَكونوا مِن أَصحابِ السَّعيرِ
 “Beshak Shaitan Tumhara Dushman Hai To Tum Bhi Usse Apna Dushman Samjho Woto Apne Giroh Ko Isliye Bulata Hai Ki Dozakhiyo Me Ho ”
 (Surah No 35 Surah Faatir, Ayat : 06)
In dono Jamaat ka Bayan karne ka maksaad ye hai k fark wajeh hojaye ek wo Jamaat hai jisko ALLAH ne apni Jamaat kaha hai wo kinki Hai Ambiya Aulia Siddikeen Shohda Nek Momin ko Aur Dusri wo jamaat hai jo Shaitani Group hai jo uske kehne pe chal pade buth parasti ki logo ko imaan laane se roka Khudayi dawa kar bethe jaise Firaoun, Namrood, Shaddat wagerah aur wo buth jinko Pujne k liye Shaitan ne kuffaro ko behkaya aur apni jamaat bana daali.
Aaj koshish ye ki jaa rhi hai wo HIZBUSHAITAN Shaitani group k saath ALLAH waalo ko mila rhe hai aur khich k Hizbullah ko wo jinhe ALLAH ne apni Jamat kaha hai unhe Shaitani Party me shamil karne par tule hai halanki wo kar nahi sakte par koshish jarur karte hai.
Yaha Par Humne Dono Jamaat ka mukhtasar sa khulasa kiya hai taaki pata chala ALLAH waalo ki baat alag hai aur Shaitani Grp ki alag ALLAH Taala Apni Sifaat Hizbullah ko to ata kar deta hai par Hizbushaitan ko nahi.


Part 02 - Allah Taa’la Ne Apne Bando Ko Bhi Sifaat Ata Ki Hai Qurani Faisla Quran Ki Bayan Karda Tawheed :
Chunki Wahabiyo ki SO CALLED TAUHEED hai dawa h k ALLAH ki Sifaat Uske Bando me maan li to MUSHRIK hogye lihaja ab hum Quran se hi dekhte hai k QURAN kya kehta hai.
1) Maalik Kon ?
Ayat 06 : هُوَ اللَّهُ الَّذي لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ المَلِكُ القُدّوسُ
 “Wohi Hai Allah Jiske Siwa Koi Maabod Nahi, Maalik (Badsha) Nihayat Paak ” (Surah 59 Surah Hashr, Ayat 23)
 Maalik ye Sifaat Allah Taala Ki Hai banda Pukarta hai Aye Malik ALLAH Taala k liye thek hai.
 Gair Mukallid k mullah aksar khte hai jaise k tauseef ur rehman ne to kaha bhi hai k MALIK TO ALLAH HAI SUNNI Nabi Alaihi Salam ko bhi Malik kehte ye kahne se Mushrik Hojayga Nikaah Toot Jaayga.
Ab aaye dusri aayat dekhe
Ayat 07 :
 وَنادَوا يا مالِكُ لِيَقضِ عَلَينا رَبُّكَ
 “Aur Wo Pukarenge, Aye Maalik Tumhara Parwardigar Hume Maut Hee Dede, Woh Farmayga Tumhe To Taherna Hai”
 (Surah 43, Surah Al Zukhruf, Ayat 77)
 Pahli aayat me farmaya MALIK, ALLAH Taala k liye hai
 Phir ussi Quran me dusre makam me farmaya aaayat Surah Zukhruf Ayat 77 Malik kisko Daroga e Jahannam ko k unhe kaafir kahnge Malik Hume Maut de de Malik Farmayga tumhe hamesha Jahannam me rehna hai.
 Kya Huwa Shirk hogaya ? ALLAH bhi Maalik Daroga e Jahannam Bhi Malik ? Tum Nabi AlaihiSalam ko Maalik nahi bologe Shirk hai kyu ?
 Kya Taabir Nikalenge iski ?
 Taabir wohi niklegi jo Ahle Sunnat ka akeeda hai ALLAH MAALIK Hai wo apni sifaat se Maalik hai bande ka Malik hona ALLAH Taala Ki Ata se hai.
2) Rauf O Rahim Hona
Ayat 08 :
 إِنَّ اللَّهَ بِالنّاسِ لَرَءوفٌ رَحيمٌ
 “Beshak Allah Logon Par Bahot Rauf o Rahim Hai”
 (Al Quran, Surah 2 Baqarah Ayat : 143)
Ayat 09 :
 لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَءوفٌ رَحيمٌ
 “Beshak Tumhare Pass Tashrif Laaye Tum me Wo Rasool Jinpar Tumhara Masshakat Me Parhna Bhari Hai Tumhari Bhalai k Nihayat Chahne Waale Musalmano Par Rauf o Rahim”
 (Al Quran, Surah 9 Tawbah Ayat : 128)
 Pehli aaayat e mubarak me dekhe to Rauf o Raheem Kon hai ALLAH ab unke nazariye se kisi aur ko Rauf O Raheem maan le to shirk aajayaga Shirk Fi Sifaat maana jaayga magar nahi Shirk nahi aayga
 Dusre makam me Farmaya Nabi E Karim صلى الله عليه و آله وسلم bhi RAUF O RAHEEM Hai.
 Isme bhi Tabeer yehi kayam hogi ALLAH Taala ka RAUF O RAHIM hona uska Jaati hai Nabi E Karim صلى الله عليه و آله وسلم Ka Rauf O Rahim Hona Atayi hai. Lihaja Ye Shirk ka Fark wajeh hogaya.

03)HAFEEZ Kon Hai ?
Ayat 10 :
 إِنَّ رَبّي عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ حَفيظٌ
 “Beshak Mera Rab Har Chiz Par Nigehbaan (Hafeez) Hai”
 (Al Quran Surah 11 Hudh Ayat : 57)
Ayat 11 :
 إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحافِظونَ
 “Beshak Humne Utara Hai Yeh Quran Aur Beshak Khud Iske Nigehbaan (Hafeez) Hai”
 (Al Quran Surah No : 15 Surah Al Hizr , Ayat : 09)

Ayat 12 :
 قالَ اجعَلني عَلىٰ خَزائِنِ الأَرضِ ۖ إِنّي حَفيظٌ عَليمٌ
 “Yusuf Ne Kaha Mujhe Zamin k Khazane Par Karde, Beshak Mai Hifazat Waala Ilm Wala Hoon”
 (Al Quran Surah 12 Yusuf Ayat : 55)
 Pehli aayat me Farmaya HAFEEZ ALLAH Taala hai aur ussi Quran me ALLAH Taala Ne Yusuf Alaihi Salam ko bhi Hafeez Farmaya.
Quran Ki barkaat hai wo jo kehte hai ALLAH k elawa koi Hafeez nahi hai unke ghar bhi 05 madrase me padhne k baad ek ladka bhi khud ko Hafeez Kahte hai ? Kyu ?
 Besharmo Sharm nahi aati ALLAH Taala Ko Bhi Hafeez maante ho aur Apne Ladko ko bhi maante ho Shirk hojana chahye Na ?
04 ) Aala Hona
 Ayat 13 :
 سَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ الأَعلَى
 “Apne Rab Key Naam Ki Paaki Bolo Jo Sabse AALA (Buland) Hai ”
 (Al Quran Surah 87 Aala Ayat : 01)
Ayat 14 :
 قُلنا لا تَخَف إِنَّكَ أَنتَ الأَعلىٰ
 “Humne Farmaya Dar Nahi Beshak Tu (Moosa Alaihi Salam) Hi Aala (Gaalib) Hai”
 (Al Quran Surah 20 Taha Ayat :68)
Lafz AALA ALLAH Taala Farmata hai Mai ALLAH Hu ab unke Nukte nazar se Kisi ko bhi AALA kaha to Shirk hojayga aur is lafz se wahabiyo ko badi nafrat bhi hai k Ahmad Raza Khan Rahimullah Ko bhi tum Aala bolte ho AALA bas ALLAH TAALA hai baaki koi AALA Nahi lkin ussi Quran me ALLAH Taala Ne Apne Nabi Hazrat Moosa Alaihi Salam ko farmaya jab Firaun se Mukable ka wakt aaya hai farmaaya khauf naa rakh tu hi Aala hai. Kya Huwa Shirk Huwa ALLAH bhi AALA Banda Bhi Aala.
Kya Har Kisi ko AALA Keh Sakte hai ? Nahi Iski izazat nahi wo Sirf ALLAH k Bando ko hai lihaja Jab Moosa Alaihi Salam ne kaha na k Mai AALA hu to Firaun ne bhi kaha Tha padhe
 Firaun Ne Bhi Daawa Kiya Mai AALA HU USKE JUMLE KA RADDH KAR DIYA
Ayat 15 :
 فَقالَ أَنا رَبُّكُمُ الأَعلىٰ
 “Phir Bola Mai Tumhara Sabse AALA (Uncha) Rab Hoon”
 (Surah 79 Naziyat Ayat 24 )
Ayat 16 :
 فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكالَ الآخِرَةِ وَالأولىٰ
 “To Allah Ne Usse Dunya Aur Aakhirat Dono K Aazab Me Pakda”
 (Surah 79 Naziyat Ayat 25 )
Besharmo Sharm nahi aati ALLAH Taala Ko Bhi Hafeez maante ho aur Firaun Ne Bhi AALA hone ka dawa kiya tha natiza kya huwa Firaun ko Aazab e Ilahi me pakda gaya aur ALLAH ne Moosa Alaihi Salam ko AALA kaha aur phir apni Taraf unko rakha ye jo HIZBULLAH ALLAH KI JAMAAT HAI aur wahi dusri Taraf Firaun ka raddh kiya k tu AALA Nahi Moosa Alaihi Salam Aala Hai Firaun Hizbushaitan hai Shaitani Jamaat.
 Pata Chala ALLAH Taala ALLAH Taala Apni Baaj Sifat wo khas sirf Apne bando Hizbullah ko deta hai Hizbushaitan ko nahi.
5) Maula Kon ?
 Ayat 17 :
 قُل لَن يُصيبَنا إِلّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا هُوَ مَولانا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ
 “Tum Farmao Hume Na Pahuchega Magar Jo Allah Ne Hamare Liye Likh Diya, Wo Hamara MAULA Hai, Aur Musalmano Ko Allah Hi Par Bharosa Chahye”
 (Al Quran Surah 09 Tawbah Ayat : 51)
Ayat 18 :
 بَلِ اللَّهُ مَولاكُم ۖ وَهُوَ خَيرُ النّاصِرينَ
 “Beshak Allah Tumhara Maula Hai aur Sabse Badkar Madadgaar Hai”
 (Al Imraan Ayat 150)
Ayat 19 :
 ذٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَولَى الَّذينَ آمَنوا وَأَنَّ الكافِرينَ لا مَولىٰ لَهُم
 “Aur Isliye k Musalmano ka Maula Allah Hai Aur Kafiro ka Koi Maula Nahi”
 (Al Quran Surah 47 Muhammad Ayat :11)
Ayat 20 :
 ا عَلَيهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَولاهُ وَجِبريلُ وَصالِحُ المُؤمِنينَ ۖ وَالمَلائِكَةُ بَعدَ ذٰلِكَ ظَهيرٌ
 “To Beshak ALLAH unka Madadgaar Hai Aur Jibril Aur Nek Imaan Waale Aur Uske Baad Farishte Madad Par Hai”
 (Surah No 66 Surah Tahrim Ayat 04)
 Is Lafz Maula se bhi Badi Chid hai wahabiyo ko kehte hai Maula Sirf ALLAH hai baaki kisi aur ko Maula Nahi kah sakte Lihaja Shirk Hai Tum Hazrat Ali Radi ALLAHO ANHO Ko Maula kehte ho Jabki Maula Sirf ALLAH hai.
ALLAH Taala k Maula hone ka Inkaar kiya kisne ? Quran Me khud ALLAH irshaad Farmata hai Mai Maula Hoon Musalmano k Maula Hai JIbril Alaihi Salam, Nek Musalmaan, Farishte, Aur Khud Rab Tabarakwatala to Quran khud Maula Bando ko keh raha hai aur is masle ko itni usaat di ALLAH k Nabi Sal ALLAHU ALAIHI WASSALAM ne K Farmya
 Hadees : مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ
 Hazrat Zaid Bin Arqam Se rivayat Hai Nabi e Karim Sal Allahu Alaihu Wassalam ne farmaya JISKA MAI MAULA HOON USKA ALI MAULA HAI.
 References :
 (Sunan Tirmizi, Kitab No 49 Kitabul Manakib, Hadees : 4078, "English No : 3713")
 (Sunan ibn Majah, Kitab No : 01 AL Mukaddama Hadees : 126 " English No : 121)
To Hum par ye ilzaam naa lagaye k Hum Bando ko ALLAH bana rahe wo tum ho jinhone ALLAH ki Shan ko Bila Wajah bando se milane ki koshish ki hai kya natiza hoka iska Banda bhi Maula ALLAH bhi Maula Phir Wohi ek hi raasta hai jo upar wajeh kiya hai fark koi.
(Note : In Sha ALLAH Taala Is masle MAULA pe ek mukammal post aaygi Hazrat ALI Radi ALLAHO ANHO Ko MAULA ALI KAHNA KAISA usme itne hawale denge k inki akal thikane aajaygi.)
 Hosakta hai ab yaha ye Mugalta subahat pesh kiye jaaye k jo tumne Sifaat bayan ki hai woto Nabiyo aur Farishto k liye hai tum gair e Nabi Alaihi Salam me ye baat dikhao ?
 Ye ek Waswasa hai unki jaanib se Awaal to ye kahunga k kya tum ALLAH k Nabi Alaihi Salam ko farishto ko Sharik maante ho ?
Kayamat aajaygi kabhi iska jawab nahi aayga.
 Khair ab mai wo Sifaat Gair e Nabi me dikha raha hu jo to upar bayan karda sifaat se zyada mukhalifeen pe jarb lagayigi wo hai
07) Rab Hona
 Ek Anpad Jaahil Se Jaahil Insaan Ko Pucho Tera RAB Kon hai wo kahega Mera RAB ALLAH hai mai ahle Ilm ki baat nahi kar raha jahil awaam bhi itna jaanti hai ab kisi aur ko koi Rab Kahde to unpad to dur padha likha shaks bhi
 fauran SHIRK k fatwe thok dega.
Ayat 21 :
 الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العالَمينَ
 “Tamam Khubiya Allah k Liye Jo RAB Hai Saare Jaahan Waalo Ka”|
 (Al Quran Surah 01 Fatiha Ayat 01)
 Ab Rab To ALLAH hai iske aage Dastageer hona Gaus Hona Garib Nawaz Hona, Daata hona ye sab to choti sifaat hai halanki ye tamam lafz to Quran me nahi hai ye to Farsi k alfaaz hai lkin ab dekho Quran ne aur kisko RAB bola hai.
Ayat 22 :
 ا صاحِبَيِ السِّجنِ أَمّا أَحَدُكُما فَيَسقي رَبَّهُ خَمرًا
 “Aye Kaid khane k Dono Sathiyo Tum Me Ek To Apne RAB (Badshah) ko Sharab Pilayga”
 (Al Quran Surah 12 Yusuf Ayat : 41)
Ayat 23 :
 لَ لِلَّذي ظَنَّ أَنَّهُ ناجٍ مِنهُمَا اذكُرني عِندَ رَبِّكَ
 “Aur Yusuf Ne Un Dono Se Jise Bachta Samjha Us’se Kaha Apne RAB(Badshah) k Pass Mera Zikr Karna”
 (Al Quran Surah 12 Yusuf Ayat :42)
Ayat 24 :
 فَأَنساهُ الشَّيطانُ ذِكرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجنِ بِضعَ سِنينَ
 “To Shaitan Ne Usse Bhula Diya Ki Apne Rab (Badshah) K Saamne Yusuf Ka
 Zikr Kare To Yusuf Kayi Baras Aur Zelkhane Me Raha”
 (Al Quran Surah 12 Yusuf Ayat :42)
 Ye Pura Wakya Surah Yusuf me Tafseer se mauzood hai mai yaha sirf uska pasmanzar likh rha hu taaki khulasa hojaye Jab Hazrat Yusuf Alaihi Salam ko
 Kaid Kiya hai to Jail me 02 kaidiyo ne khwab dekha jiski taabeer bayan ki
 Hazrat Yusuf Alaihisalam ne k Ek ko Maut saza hogi aur ek badshah ko jisko RAB kaha Hazrat Yusuf Alaihi Salam ne usko sharab pilayga usko kaha k Mera ZIKR MERE RAB SE KARNA.
 Gaur Kare Kya Yusuf Alaihi Salam ko tauheed nahi pata thi k Badhshah ko APNA RAB kah diya ek baar nahi nahi 03 baar jo aayat me aaya aur Quran ne iska mukammal zikr kiya hai kyu ??
 ALLAH ne to Yusuf Alaihi Salam par wohi bhejne tha k tumne Mere Elawa wo bhi badshah ko RAB maan liya Shirk hogaya.
ALLAH Taala Kharjio ki so called Tawheed ka Buth khana toda hai Chunki Rab Taala Jaanta tha ek aisi kaum aaygi jo Tauheed ko galat bayan karegi
 Mere Bando ko Mushrik kahegi.
Yaha to Rab bol diya wo bhi BADHSHAH ko jo Nabi bhi nahi Wali bhi nahi tum Daata Gaus Garib Nawaz kahne pe lad rehe ho to yaha jo maana mazaz ka liya jayga wohi waha liya gaya hai yaha shirk na hua to waha kaise shirk hoga ??
Kya Taabir Nikalenge ALLAH Taala Ki Sifaat Uske bando me maano to Shirk unka kahna hai phir kya karnge yaha ?
 Taabeer wohi hogi jo AHLE SUNNAH WA Jamaat ki hai Bando ka Hona
 ALLAH Taala Ki Ata se hai aur ALLAH Ka Hona Uska Jaati hai Alhamdullilah
 Agr inka nazariya maana jaaye to dunya to dur phir QURAN ko hi pura
 shirkiya maan naa padh jaayge.
Hawala itna zyada hai k sab bayan nhi kiye jaa sakte ye bas 24 number k raddh 24 Aayat e Qurani se unki khud sakhta tauheed ka QURANI jawab diya hai agr chahte to 200 aayato se raddh kar sakte the par QURAN hai ek aayaat bhi aaye to maano par jinke dilo me KUFR hai unko pura QURAN bhi kaafi nahi hai.

Friday, 22 April 2016

Ek Jahilana Post Aur Uska Jawab

BAD'MAZHAB ILM SE YATEEM AQAL SE PEDAL WAHABI KA FAREEB AUR USKA JAWAB
“Assalaamu Alaekum Warahmatullaahi Wabarakaatahu
Alagh alagh Shirkiya kalmaat  aur Allaah Ta’ala ke jawaabaat QURAN mein:
Shirk#1:
 Bhar De Jholi Meri Ya Mohammad….
 >Al-Quran: Aey Nabi aap keh dijiye insano se ke tumhare nafa aur nuqsan ka ikhtiar sirf Allah ke paas hay
 (Surah Jin:21)
Shirk#2:
 Shah-e-Madina, Sare Nabi Tere Dar Ke Sawali…
>Al-Quran: Aey logo! tum sirf Mere dar ke faqeer ho…
(Surah Fatir:15)
Shirk#3:
 Jo Mang Dar-e-Mustafa Se Maang…
>Al-Quran: Jo maango sirf Mujh se maango, sirf
 Mai tumhari Dua Qabool krta hun
 (Surah Momin:60)
Shirk#4:
 Maula Ali Meri Kashti Paar Laga De…
>Al-Quran: Jab kashti mei sawar hote hain to
 Allah ko pukarte hain
 (Surah Ankabut:65)”
Dalail (Quran-o-Hadees)–>
Huzoor-e-Akram
 (صلی اللہ علیہ وسلم)
ki tareef (naat) ko shirk kehny wale badmazhab tauba karein !
Naat 1->
 Bhar do jholi meri ya muhammad…
Jawaab->
Al-Quran->Aur jo kuch tumhe Rasool ata farmayein wo lo
 (surah Al-hashr ayaat no.7)
Al-Quran-Aur inhe kya bura laga yehi na ke Allah aur Rasool ne inhe apne fazl se gani kar diya
 (surah Al-Tauba ayaat no.74)
Naat 2->
 Shah-e-Madina saare Nabi tere dar ke sawali….
Jawaab->
 Al-Quran->Aur yaad karo jab Allah ne paigambaron se inka ahad liya (surah Al-Imran Ayaat no.81)
Al-hadees->Nabi-e-Pak (صلی اللہ علیہ وسلم) ne farmaya,
“Allah deta hai aur main taqseem karta hun”
(Bukhari shareef jild 1 safha 16)
Naat 3->
 jo mang dare mustafa se mang….
Jawaab->
Al-Quran->Aur agar jab wo apni jaano par zulm karein toh aye mehboob tumhare huzur hazir hon aur phir Allah se maafi chahein aur Rasool inki shafayat farmayein toh zaroor Allah ko bahut tauba qubul karne wala meherban payein
 (Surah Al-Nisa ayaat no.64)
Istagasa 4->
 Maula Ali meri kashti paar laga dena….
Jawaab->
Al-Quran->tumhare dost nahi magar Allah aur uska Rasool aur Imaan wale
 (surah Al-Maida ayaat no.55)
 (kya hazrat Ali (رضی الله عنہ) imaan wale nahi..?)
Al-hadees->Nabi-e-pak (صلی اللہ علیہ وسلم) ne farmaya,
“Beshak Ali mujh se hain aur main Ali se hun aur Ali har momin ka madadgar hai mere baad”
(tirmizi shareef jild 2 safha 212)
Naat 5->
 Norani noor har bala door
Jawaab->
 Al-Quran->Toh beshak Allah inka madadgar hai aur jibrael aur neik imaan wale aur iske bad farishte (yaani noor) madad per hain
 (surah Al-tahreem ayaat no.4)
Aayein ab aapko batate hain ke yeh log badmazhab kyun quran paak ki ayaat ko galat jagah isemal karke musalmano ko gumrah karte hain….
Hazrat Abdullah bin umar (رضی الله عنہ) farmate hain,
“kharji (jo deen say kharij ho yani badmazhab) itne gumrah log hain ke jo ayaat kafiron (mushrikeen) aur buton (idols,murtiyon) ki mazamat me nazil huyein inko musalman par chispan karte hain”
(sahih bukhari jild 2 sahfa 1024)
Mazeed aayein jante hain ki yeh badmazhab log kyun baat cheet (har baat) par muslmano par shirk ka fatwa laga dete hain ?
Nabi-e-paak (صلی اللہ علیہ وسلم) ne farmaya,
“Mujhe tum par us shaksh ka khauf hai jo quran paak padhega aur is par quran ki ronaq daikhi jaye gi aur usne islam ki chadar odh li ho gi phir Allah jidhar chahy ga usko behka dega wo islam ki chadar se nikal jayega aur apne musalman padosi par talwar chalaye ga aur us par shirk ki tohmat lagayega”
Sahaba ikram (ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨهما) ne pyaare Aaqa (صلی اللہ علیہ وسلم) se pucha
“dono main mushrik kon ho ga ?”
Aap (صلی اللہ علیہ وسلم) ne farmaya,
“shirk ki tohmat laganay wala” (tibrani shareef jild 20 sahfa 88)
{Aayein is topic ko aur clear karlein Allah ka shukr ada karein Sunni bhaiyon aur inke shirk ke fatwon se pareshan hona chodh dein}
Hamare pyare Nabi-e-Paak (صلی اللہ علیہ وسلم) ki gawahi ummat ke naam farmaya,
“khuda ki kasam mujhe yeh khauf nahi ke tum mere baad shirk karne lagoge”
 (Bukhari shareef hadees no.6426)
Allah humein in gumraah logon se bachaye….

Featured post

T.M.C Hospital Kauasa Mumbra Thane

  T.M.C Hospital Kauasa Mumbra Thane Is Hospital Me 120 mm Cable 400 mt Aur 70 mm Cable 150 mt Hamari Team Ne dalkar 5 Panel fiting kiya Cab...